What's new

loadshading bhol jaye

Huda

SENIOR MEMBER
Joined
Sep 11, 2009
Messages
2,694
Reaction score
0
Country
Pakistan
Location
Pakistan
پاکستان اور کئی دوسرے ان ملکوں میں رہنے والوں کے لیے، جنہیں آئے روز لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ خبر دلچسپی کاباعث ہوگی کہ سائنس دان ایک ایسا وال پیپر تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو روشنی خارج کرتا ہے۔ دیواروں پر یہ مخصوص وال پیپر لگانے کے بعد کمرے کو روشن کرنے کے لیے بجلی کے بلب، گیس کے لیمپ، لالٹین یا موم بتی وغیرہ جلانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

کاربن کے کم اخراج کی ٹیکنالوجی کے لیے کام کرنے والے برطانیہ کے ایک سرکاری ادارے’کاربن ٹرسٹ‘ کا کہناہے کہ 2012ء تک روشنی خارج کرنے والے اس وال پیپر کا استعمال شروع ہوسکتا ہے جس سے کمرے میں روشنی کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ روشنی دینے والے وال پیپر پر ایک مخصوص کیمیائی مادہ لگایا گیا ہے۔ وال پیپر کو جب دیوار پر لگایا جاتا ہے اس سے نکلنے والی روشنی کمرے میں ہر جگہ یکسانیت کے ساتھ پھیل جاتی ہے جس سے سایہ وغیرہ بھی نہیں بنتا جیسا کہ بجلی کے عام بلب کی روشنی سے بنتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ وال پیپر پر لگے ہوئے کیمیائی مادے سے روشنی پیدا کرنے کے لیے اسے برقی رو کی ضرورت ہوگی لیکن ایسا کرنے سے بہت ہی کم بجلی صرف ہوگی یعنی تقریباً تین وولٹ، جو ایک عام بیٹری سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ معمولی برقی قوت کے باعث دیوارکو چھونے سے کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوگا نہ ہی کوئی برقی جھٹکا محسوس ہوگا۔ روشنی کی مقدار کم یا زیادہ کرنے کے لیے وہ عام بٹن جنہیں ڈمر کہا جاتا ہے، استعمال کیے جاسکیں گے۔

کاربن ٹرسٹ نے روشنی فراہم کرنے والے وال پیپر کی تیاری کے لئے ’لوموکس ‘ نامی کمپنی کو ساڑھے چارلاکھ پونڈ سے زیادہ کا فنڈ دیا ہے۔ یہ کمپنی کچھ عرصے سےنامیاتی روشنی خارج کرنے والے ڈائیوڈز ٹیکنالوجی پر تحقیق کررہی ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ روشنی دینے والا وال پیپر، موجودہ دور کے انرجی سیونگ قمقموں سے ڈھائی گنا کم توانائی استعمال کرے گا۔ جس سے حکومت کے اس ہدف کو پورا کرنے میں مدد ملے گی جس کے تحت برطانیہ 2020ء تک ملک میں کاربن گیسوں کے اخراج میں 34 فی صد تک کمی کرنا چاہتا ہے۔ برطانیہ میں پیدا ہونے والی بجلی کا چھٹا حصہ عمارتوں کے اندورنی حصوں کو روشن کرنے کے لیے استعمال ہوتاہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ روشنی دینے والے مخصوص کیمیائی مادے کو وال پیپر کی بجائے براہ راست دیواروں پر لگاکر انہیں روشن کیا جاسکتا ہے۔ اس مادے کا استعمال ٹیلی ویژن، کمپیوٹر اور موبائل فونز کی سکرینوں پر بھی کیا جاسکتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ نئی ایجاد کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ ر وشنی فراہم کرنے کا پورا نظام تین سے پانچ وولٹ کی برقی قوت پر کام کرتا ہے۔ جب کہ ایک عام بلب کو روشن کرنے کے لیے پاکستان اور اکثر دوسرے ملکوں میں 220 وولٹ اور امریکہ میں110 وولٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ وال پیپر کو بہت کم مقدار میں بجلی درکار ہوگی، اس لیے یہ ضرورت عام بیٹری یا گھر کی چھت پر شمسی توانائی کے پینل لگاکر باآسانی پوری کی جاسکے گی۔

نئی ٹیکنالوجی پر کام کرنے والی کمپنی لوموکس کا کہنا ہے کہ وہ پہلے مرحلے میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال سڑکوں پر نصب ان نشانات اور اشاروں کو روشن کرنے کے لیے کرے گی، جہاں بجلی موجود نہیں ہے۔

کمپنی کے سربراہ کین لیسی کا کہنا ہے کہ وہ اپنی اس نئی ایجاد کو 2012ء میں فروخت کے لیے پیش کردیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کیمیائی مادے سے خارج ہونے والی روشنی سورج کی روشنی جیسی ہے جس میں قدرتی روشنی میں پائے جانے والے تمام رنگ موجود ہیں۔

اگرچہ روشنی خارج کرنے والے اورگینک ڈائیوڈ جنہیں ایل ای ڈی بھی کہاجاتا ہے، کئ برسوں سے انسان کے زیر استعمال ہیں، تاہم مسٹر لیسی کہتے ہیں کہ اپنی قیمت اور پائیداری کے باعث ان پرمزید تحقیقی کام رک گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی، ایل ای ڈی سے کہیں زیادہ سستی اور پائیدار ٹیکنالوجی ایجاد کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

مسٹر لیسی کہتے ہیں کہ اس نئی ٹیکنالوجی کی بدولت ایسی سکرینیں بنانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے جنہیں کاغذ کی طرح لپیٹا جاسکے گا۔ اور انہیں رول کی شکل میں لپیٹ کر آپ کہیں بھی لے جاسکیں گے۔

کاربن کی گیسوں کا اخراج کم کرنے سے متعلق ادارے ’ کاربن ٹرسٹ ‘ کے ڈائریکٹر مارک ولیم سن کہتے ہیں کہ کاربن گیسوں کے اخراج کی ایک بڑی وجہ روشنی کا حصول ہے۔ کیونکہ عمارتوں کو روشن رکھنے کے لیے بجلی کا ایک بڑا حصہ استعمال ہوتا ہے اور زیادہ تر پاور ہاؤس، کوئلے اور معدنی ایندھن سے چلتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت زیادہ توانائی بچانے والی یہ ٹیکنالوجی عالمی مارکیٹ میں بہت جلد اپنے لیے جگہ بنا لے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایجاد ماحول دوست ٹیکنالوجی کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے
 
پاکستان اور کئی دوسرے ان ملکوں میں رہنے والوں کے لیے، جنہیں آئے روز لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ خبر دلچسپی کاباعث ہوگی کہ سائنس دان ایک ایسا وال پیپر تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو روشنی خارج کرتا ہے۔ دیواروں پر یہ مخصوص وال پیپر لگانے کے بعد کمرے کو روشن کرنے کے لیے بجلی کے بلب، گیس کے لیمپ، لالٹین یا موم بتی وغیرہ جلانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

کاربن کے کم اخراج کی ٹیکنالوجی کے لیے کام کرنے والے برطانیہ کے ایک سرکاری ادارے’کاربن ٹرسٹ‘ کا کہناہے کہ 2012ء تک روشنی خارج کرنے والے اس وال پیپر کا استعمال شروع ہوسکتا ہے جس سے کمرے میں روشنی کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ روشنی دینے والے وال پیپر پر ایک مخصوص کیمیائی مادہ لگایا گیا ہے۔ وال پیپر کو جب دیوار پر لگایا جاتا ہے اس سے نکلنے والی روشنی کمرے میں ہر جگہ یکسانیت کے ساتھ پھیل جاتی ہے جس سے سایہ وغیرہ بھی نہیں بنتا جیسا کہ بجلی کے عام بلب کی روشنی سے بنتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ وال پیپر پر لگے ہوئے کیمیائی مادے سے روشنی پیدا کرنے کے لیے اسے برقی رو کی ضرورت ہوگی لیکن ایسا کرنے سے بہت ہی کم بجلی صرف ہوگی یعنی تقریباً تین وولٹ، جو ایک عام بیٹری سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ معمولی برقی قوت کے باعث دیوارکو چھونے سے کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوگا نہ ہی کوئی برقی جھٹکا محسوس ہوگا۔ روشنی کی مقدار کم یا زیادہ کرنے کے لیے وہ عام بٹن جنہیں ڈمر کہا جاتا ہے، استعمال کیے جاسکیں گے۔

کاربن ٹرسٹ نے روشنی فراہم کرنے والے وال پیپر کی تیاری کے لئے ’لوموکس ‘ نامی کمپنی کو ساڑھے چارلاکھ پونڈ سے زیادہ کا فنڈ دیا ہے۔ یہ کمپنی کچھ عرصے سےنامیاتی روشنی خارج کرنے والے ڈائیوڈز ٹیکنالوجی پر تحقیق کررہی ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ روشنی دینے والا وال پیپر، موجودہ دور کے انرجی سیونگ قمقموں سے ڈھائی گنا کم توانائی استعمال کرے گا۔ جس سے حکومت کے اس ہدف کو پورا کرنے میں مدد ملے گی جس کے تحت برطانیہ 2020ء تک ملک میں کاربن گیسوں کے اخراج میں 34 فی صد تک کمی کرنا چاہتا ہے۔ برطانیہ میں پیدا ہونے والی بجلی کا چھٹا حصہ عمارتوں کے اندورنی حصوں کو روشن کرنے کے لیے استعمال ہوتاہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ روشنی دینے والے مخصوص کیمیائی مادے کو وال پیپر کی بجائے براہ راست دیواروں پر لگاکر انہیں روشن کیا جاسکتا ہے۔ اس مادے کا استعمال ٹیلی ویژن، کمپیوٹر اور موبائل فونز کی سکرینوں پر بھی کیا جاسکتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ نئی ایجاد کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ ر وشنی فراہم کرنے کا پورا نظام تین سے پانچ وولٹ کی برقی قوت پر کام کرتا ہے۔ جب کہ ایک عام بلب کو روشن کرنے کے لیے پاکستان اور اکثر دوسرے ملکوں میں 220 وولٹ اور امریکہ میں110 وولٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ وال پیپر کو بہت کم مقدار میں بجلی درکار ہوگی، اس لیے یہ ضرورت عام بیٹری یا گھر کی چھت پر شمسی توانائی کے پینل لگاکر باآسانی پوری کی جاسکے گی۔

نئی ٹیکنالوجی پر کام کرنے والی کمپنی لوموکس کا کہنا ہے کہ وہ پہلے مرحلے میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال سڑکوں پر نصب ان نشانات اور اشاروں کو روشن کرنے کے لیے کرے گی، جہاں بجلی موجود نہیں ہے۔

کمپنی کے سربراہ کین لیسی کا کہنا ہے کہ وہ اپنی اس نئی ایجاد کو 2012ء میں فروخت کے لیے پیش کردیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کیمیائی مادے سے خارج ہونے والی روشنی سورج کی روشنی جیسی ہے جس میں قدرتی روشنی میں پائے جانے والے تمام رنگ موجود ہیں۔

اگرچہ روشنی خارج کرنے والے اورگینک ڈائیوڈ جنہیں ایل ای ڈی بھی کہاجاتا ہے، کئ برسوں سے انسان کے زیر استعمال ہیں، تاہم مسٹر لیسی کہتے ہیں کہ اپنی قیمت اور پائیداری کے باعث ان پرمزید تحقیقی کام رک گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی، ایل ای ڈی سے کہیں زیادہ سستی اور پائیدار ٹیکنالوجی ایجاد کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

مسٹر لیسی کہتے ہیں کہ اس نئی ٹیکنالوجی کی بدولت ایسی سکرینیں بنانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے جنہیں کاغذ کی طرح لپیٹا جاسکے گا۔ اور انہیں رول کی شکل میں لپیٹ کر آپ کہیں بھی لے جاسکیں گے۔

کاربن کی گیسوں کا اخراج کم کرنے سے متعلق ادارے ’ کاربن ٹرسٹ ‘ کے ڈائریکٹر مارک ولیم سن کہتے ہیں کہ کاربن گیسوں کے اخراج کی ایک بڑی وجہ روشنی کا حصول ہے۔ کیونکہ عمارتوں کو روشن رکھنے کے لیے بجلی کا ایک بڑا حصہ استعمال ہوتا ہے اور زیادہ تر پاور ہاؤس، کوئلے اور معدنی ایندھن سے چلتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت زیادہ توانائی بچانے والی یہ ٹیکنالوجی عالمی مارکیٹ میں بہت جلد اپنے لیے جگہ بنا لے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایجاد ماحول دوست ٹیکنالوجی کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے

yeh kia hai huda jee?? atleast font tou bara kar daiti...
 
Pakistan and several other countries for those living in, which came days shedding and power cuts size face, that this news will kabaas interested scientist to develop a wallpaper became a success who destroys the light is . This particular wallpaper on the walls after applying for room light bulb electricity, gas lamps, lanterns or candle lighting, etc. will not be required.

Carbon low emissions technology working for Britain, a government institution 'carbon trust' the Meanwhile that by 2012 light to destroy the the wallpaper start using perhaps the room light for anything needed rest will not.

Experts say that the wallpaper to light a specific chemical substance has been imposed. Wallpaper, when the wall is put forth from the room light is everywhere spread with consistency, which does not shade etc. As ordinary electric light bulb is made of.

Experts said that although the wallpaper on chemicals to create light from electricity it will need to cry, but doing so will be very little power ie only about three volts, which can be obtained from a normal battery. electric power due to minor touching any dyuarku will cause no harm or any electric shock will be felt. more or less the amount of light to which the common button called Diamir, would could be used.

Carbon Trust to provide light for the preparation of wallpaper 'lumuks called' company more than half of the fund has £ carlakh. Synamyaty this company some time to remove the light is doing the research on technology dayyudz. Institutions that light bearer wallpaper, current round energy savings qmqmun with half times less energy will use. the government's target to meet will help under which Britain by 2020 in the country carbon emissions of 34 per cent wants to recoup. born in Britain sixth power andurny parts of buildings used to always clear.

Experts say that the specific chemicals to light the wallpaper instead of putting them directly on the walls can be enlightening. The use of television material, computer screens and mobile phones also can be.

Experts say another major advantage of the new invention is to provide r Oceania entire system of three to five volt electric strength works. When a normal light bulb and many other countries Pakistan for 220 volts and 110 volts in the U.S. requires. Since very little amount of wallpaper will need electricity, so it generally requires battery or solar energy panels on the roof of the house completely and can easily be put.

New technology company working lumuks that they use the roads in the first phase of this technology installed on their signs and gestures to light will, where electricity is not available.

Company chief Ken Lasse that he his new invention to in 2012 for sale offer will make. They say that the chemicals from the emitted light sunlight is like the natural light found in the All colors are available.

Although light to destroy aurgynk dayyud khajata which also has LEDs, are used by man for many years, however, say Mr. Lasse and sustaining them for their price prmzyd research work has stopped. They say they The Company, much cheaper than LEDs and sustainable technology were able to have invented.

Mr. Lasse says that thanks to this new technology has now paved the way to make such screens, which paper would like to be involved. And wrapped them in the form of role you could be anywhere will take.

To reduce carbon gases emissions related institutions 'carbon trust' director Marc William heard say that carbon emissions is to achieve a bigger light. Because electricity for the buildings to clear a large part is used and most of the power house, coal and mineral fuel go. He said that many more energy saving technology in the global market, it soon will take his place for.

He said that this environmentally friendly technology invented by progress is a key
 

Latest posts

Back
Top Bottom