Amavous
FULL MEMBER
- Joined
- Aug 17, 2012
- Messages
- 693
- Reaction score
- 1
- Country
- Location
’بالاکوٹ کا مدرسہ ہمیشہ سے یہاں موجود ہے‘
رواں برس 26 فروری کو انڈیا کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ اس کے جنگی طیاروں نے پاکستان میں بالاکوٹ کے نزدیک جابہ کے مقام پر کالعدم تنظیم جیشِ محمد کے سب سے بڑے تربیتی کیمپ کو حملہ کر کے تباہ کر دیا ہے۔
انڈیا کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس آپریشن میں بڑی تعداد میں اس تنظیم کے 'دہشت گرد'، تربیت دینے والے سینیئر کمانڈر اور جہادیوں کے گروہ ہلاک کر دیے گئے ہیں۔
انڈیا کی حکمراں جماعت بی جے پی کے صدر امت شاہ نے بھی واقعے کے بعد ایک تقریر میں کہا تھا کہ فضائی کارروائی میں ڈھائی سو سے زیادہ دہشت گرد مارے گئے۔
پاکستان کی جانب سے ان دعووں کی فوری تردید کی گئی اور کہا گیا کہ کسی قسم کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور نہ ہی کسی 'کیمپ' یا 'مدرسے' کو تباہ کیا گیا ہے۔
بدھ کو پاکستانی فوج نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے چند نمائندوں کو بالاکوٹ کے اُس مقام کا دورہ کرایا جہاں وہ مدرسہ قائم ہے جسے انڈیا نے تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ بی بی سی کے عثمان زاہد بھی اس جگہ کا دورہ کرنے والوں میں شامل تھے۔ انھوں نے وہاں کیا دیکھا، جاننے کے لیے پڑھیے اس دورے کا آنکھوں دیکھا حال۔
اس دورے کے دوران نہ صرف ہمیں اس مقام پر لے جایا گیا جہاں پر انڈین فضائیہ کی جانب سے حملے کا دعویٰ کیا گیا تھا بلکہ اس مدرسے میں بھی لے جایا گیا جس کے بارے میں انڈین حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ جیش محمد کا ٹھکانہ تھا اور جسے تباہ کر دیا گیا ہے۔
ہیلی کاپٹر سے اترنے کے بعد اس پہاڑی مقام تک دشوار گزار چڑھائی پر سفر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے جاری رہا۔
وہاں پہنچ کر فوج نے ہمیں پہلے وہ مقام دکھایا جہاں درمیانی سائز کا ایک گڑھا تھا۔ اس کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ وہ گڑھا ہے جو انڈین طیاروں کے ’پےلوڈ‘ گرانے سے بن گیا ہے۔
واضح رہے کہ انڈین فضائیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ایک ہزار کلو گرام وزنی بم استعمال کیے تھے۔
یہ مقام آبادی سے بہت دور پہاڑی پر ہے اور وہاں پر صرف ایک گھر موجود ہے جسے تھوڑا نقصان ہوا ہے اور وہاں ایک شخص بھی ملا جو زخمی ہوا تھا۔
اس کے بعد ہم چوٹی تک گئے جہاں پر مدرسہ واقع ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ 26 فروری کے بعد ذرائع ابلاغ کے کسی بھی نمائندے کو وہاں تک رسائی دی گئی۔
جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک بڑا سا کمپلیکس ہے جس میں بچوں کے کھیلنے کے لیے ایک میدان بھی ہے جہاں فٹبال پوسٹ بھی موجود ہے۔
لوہے کی باڑ چاروں جانب لگی ہوئی ہے اور مرکزی ہال میں ایک مسجد ہے اور مدرسہ بھی، جہاں ڈیڑھ سو سے دو سو طلبہ قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
وہاں موجود طلبہ میں سے کسی کی بھی عمر 12 یا 13 سال سے زیادہ نہیں تھی۔
ہم نے وہاں موجود چند لوگوں سے بات بھی کی اور اساتذہ سے بھی معلوم کیا کہ یہ مدرسہ کس کے زیر انتظام ہے۔
میں نے خود ایک استاد سے معلوم کیا کہ کیا اس کا تعلق جیش محمد سے تو نہیں ہے، تو جواب میں انھوں نے کہاں کہ ہمیں نہیں معلوم یہ کس کا ہے۔
اس دورے میں ہمارے ساتھ دس سے زیادہ ممالک کے دفاعی اتاشی بھی شامل تھے جنھوں نے وہاں تصاویر لیں اور وہاں موجود طلبہ اور اساتذہ سے بھی بات کی۔
مدرسے کا دورہ تقریباً 20 منٹ تک کا تھا جس کے بعد فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے بھی میڈیا سے بات چیت کی اور ہمارے سوالات کے جواب دیے
ان کا کہنا تھا کہ ’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ مدرسے کی ایک معمولی سی بوسیدہ عمارت ہے لیکن اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا اور آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ انڈین دعووں میں کوئی سچائی نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ مدرسہ ہمیشہ سے یہیں ہے۔
تھوڑی دیر آف دی ریکارڈ گفتگو کے بعد کئی صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ واقعہ تو فروری میں ہوا تھا تو دورہ اب کیوں کروایا گیا ہے
اس پر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ’چیزیں بہت تیزی سے چل رہی تھیں تو موقع نہ مل سکا لیکن کیونکہ ابھی بہت سارے صحافی اسلام آباد میں موجود تھے تو یہ ایک اچھا موقع تھا کہ سب ک یہاں ساتھ لایا جائے۔‘
فوجی ترجمان نے کہا کہ ’یہ مدرسہ ہمیشہ سے یہاں موجود ہے اور ہر کسی کو یہاں آنے جانے کی اجازت تھی۔‘
ترجمان کا دعویٰ اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خبر رساں ادارے روئٹرز اور ملک کے دیگر میڈیا کے نمائندوں کو جابہ پر بمباری کے بعد اس مقام کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-47880179
رواں برس 26 فروری کو انڈیا کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ اس کے جنگی طیاروں نے پاکستان میں بالاکوٹ کے نزدیک جابہ کے مقام پر کالعدم تنظیم جیشِ محمد کے سب سے بڑے تربیتی کیمپ کو حملہ کر کے تباہ کر دیا ہے۔
انڈیا کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس آپریشن میں بڑی تعداد میں اس تنظیم کے 'دہشت گرد'، تربیت دینے والے سینیئر کمانڈر اور جہادیوں کے گروہ ہلاک کر دیے گئے ہیں۔
انڈیا کی حکمراں جماعت بی جے پی کے صدر امت شاہ نے بھی واقعے کے بعد ایک تقریر میں کہا تھا کہ فضائی کارروائی میں ڈھائی سو سے زیادہ دہشت گرد مارے گئے۔
پاکستان کی جانب سے ان دعووں کی فوری تردید کی گئی اور کہا گیا کہ کسی قسم کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور نہ ہی کسی 'کیمپ' یا 'مدرسے' کو تباہ کیا گیا ہے۔
بدھ کو پاکستانی فوج نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے چند نمائندوں کو بالاکوٹ کے اُس مقام کا دورہ کرایا جہاں وہ مدرسہ قائم ہے جسے انڈیا نے تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ بی بی سی کے عثمان زاہد بھی اس جگہ کا دورہ کرنے والوں میں شامل تھے۔ انھوں نے وہاں کیا دیکھا، جاننے کے لیے پڑھیے اس دورے کا آنکھوں دیکھا حال۔
اس دورے کے دوران نہ صرف ہمیں اس مقام پر لے جایا گیا جہاں پر انڈین فضائیہ کی جانب سے حملے کا دعویٰ کیا گیا تھا بلکہ اس مدرسے میں بھی لے جایا گیا جس کے بارے میں انڈین حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ جیش محمد کا ٹھکانہ تھا اور جسے تباہ کر دیا گیا ہے۔
ہیلی کاپٹر سے اترنے کے بعد اس پہاڑی مقام تک دشوار گزار چڑھائی پر سفر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے جاری رہا۔
وہاں پہنچ کر فوج نے ہمیں پہلے وہ مقام دکھایا جہاں درمیانی سائز کا ایک گڑھا تھا۔ اس کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ وہ گڑھا ہے جو انڈین طیاروں کے ’پےلوڈ‘ گرانے سے بن گیا ہے۔
واضح رہے کہ انڈین فضائیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ایک ہزار کلو گرام وزنی بم استعمال کیے تھے۔
یہ مقام آبادی سے بہت دور پہاڑی پر ہے اور وہاں پر صرف ایک گھر موجود ہے جسے تھوڑا نقصان ہوا ہے اور وہاں ایک شخص بھی ملا جو زخمی ہوا تھا۔
اس کے بعد ہم چوٹی تک گئے جہاں پر مدرسہ واقع ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ 26 فروری کے بعد ذرائع ابلاغ کے کسی بھی نمائندے کو وہاں تک رسائی دی گئی۔
جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک بڑا سا کمپلیکس ہے جس میں بچوں کے کھیلنے کے لیے ایک میدان بھی ہے جہاں فٹبال پوسٹ بھی موجود ہے۔
لوہے کی باڑ چاروں جانب لگی ہوئی ہے اور مرکزی ہال میں ایک مسجد ہے اور مدرسہ بھی، جہاں ڈیڑھ سو سے دو سو طلبہ قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
وہاں موجود طلبہ میں سے کسی کی بھی عمر 12 یا 13 سال سے زیادہ نہیں تھی۔
ہم نے وہاں موجود چند لوگوں سے بات بھی کی اور اساتذہ سے بھی معلوم کیا کہ یہ مدرسہ کس کے زیر انتظام ہے۔
میں نے خود ایک استاد سے معلوم کیا کہ کیا اس کا تعلق جیش محمد سے تو نہیں ہے، تو جواب میں انھوں نے کہاں کہ ہمیں نہیں معلوم یہ کس کا ہے۔
اس دورے میں ہمارے ساتھ دس سے زیادہ ممالک کے دفاعی اتاشی بھی شامل تھے جنھوں نے وہاں تصاویر لیں اور وہاں موجود طلبہ اور اساتذہ سے بھی بات کی۔
مدرسے کا دورہ تقریباً 20 منٹ تک کا تھا جس کے بعد فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے بھی میڈیا سے بات چیت کی اور ہمارے سوالات کے جواب دیے
ان کا کہنا تھا کہ ’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ مدرسے کی ایک معمولی سی بوسیدہ عمارت ہے لیکن اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا اور آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ انڈین دعووں میں کوئی سچائی نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ مدرسہ ہمیشہ سے یہیں ہے۔
تھوڑی دیر آف دی ریکارڈ گفتگو کے بعد کئی صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ واقعہ تو فروری میں ہوا تھا تو دورہ اب کیوں کروایا گیا ہے
اس پر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ’چیزیں بہت تیزی سے چل رہی تھیں تو موقع نہ مل سکا لیکن کیونکہ ابھی بہت سارے صحافی اسلام آباد میں موجود تھے تو یہ ایک اچھا موقع تھا کہ سب ک یہاں ساتھ لایا جائے۔‘
فوجی ترجمان نے کہا کہ ’یہ مدرسہ ہمیشہ سے یہاں موجود ہے اور ہر کسی کو یہاں آنے جانے کی اجازت تھی۔‘
ترجمان کا دعویٰ اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خبر رساں ادارے روئٹرز اور ملک کے دیگر میڈیا کے نمائندوں کو جابہ پر بمباری کے بعد اس مقام کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-47880179
Last edited: