What's new

Hashims

BANNED

New Recruit

Joined
Mar 13, 2008
Messages
52
Reaction score
0
اردو کے ایک عظیم شاعر حنیف اخگرؔ کے آخری لمحات: حب دین، اور حب رسول کی ایک حیرت ناک داستان

از: محمد بن قاسم، جستجو میڈیا

ڈلاس، ٹیکساس۔ 1 جون 2009

غمِ دنیا نہ غمِ دل ہیں مسائل میرے
حمدِ رب، نعتِ محمدؐ ہیں مشاغل میرے

ہر وقت ہے اب منظرِ طیبہ مرے آگے
وہ اٹھ گیا حائل تھا جو پردا مرے آگے

تمام عمر میں نعت و سلام لکھتا رہوں
تمام عمر اسی میں تمام ہوجائے

جناب سید محمد حنیف اخگرؔ نماز اور روزہ کا بہت التزام رکھتے۔ ان کی زندگی میں انہیں کبھی بھی نماز سے غفلت کرتے نہیں دیکھا گیا۔ آپ نے متعدد عمرے اور حج ادا کیے۔ حقوق العباد کا بھی اسی طرح خیال رکھتے، جیسے کہ دینی فرائض کا۔

اگرچہ اخگرؔ کہا کرتے کہ ان کی پسندیدہ صنفِ شاعری غزل ہی ہے، وہ ایک نہایت ہی عمدہ حمد و نعت گو شاعر بھی تھے۔ ان کا آخری مجموعہء کلام، خُلقِ مجسم، حمد و نعت، سلام و منقبت پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری اس مجموعہء کلام کے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ حمدیہ و نعتیہ و منقبتیہ شاعری اس دیوانگی ء شوق اور جذبہء والہانہ کا تقاضہ کرتی ہے، جو حضور اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم کی ذات و صفات، اور ان کی ذات و صفات سے مستفید ہونے والے اشخاص کے لیے مخصوص ہے۔ اس نوع کا انتسابِ قلبی و اختصاصِ شخصی سب کو نہیں، کسی کسی کو میسر آتا ہے۔ بحمداللہ حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کو یہ نعمت عظمیٰ من جانب اللہ عطا ہوئی۔ اس عطا کو انہوں نے حمد و نعت و منقبت کے وسیلے سے اپنے جسم و جاں کے لیے دائمی دارالصحت اور قلب و روح کے لیے ادبی دارالشفاء بنالیا۔

دین برحق، اسلام سے وابستگی، سنت رسول کی ہمہ وقت پاسداری، اور ایک پاکباز زندگی کے آخری لمحات بہت ہی انوکھے اور نادر رہے۔ جیسا کہ افسانوی ادب میں اور دیگر صوفیانہ ادب میں درویشوں کا تذکرہ آتا ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی سے لوگوں کے سامنے جان، جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ اسی طرح اپنی زندگی کے آخری لمحات میں، جب انہیں عارضی ہوش آیا، جناب حنیف اخگرؔ نے اپنے تمام اہلِ خانہ کو جو ان کے پاس ہسپتال میں موجود تھے، اپنے کمرہ میں آنے کا حکم دیا۔ ایک، ایک سے ہاتھ ملایا، سلام کیا، اور انہیں خدا حافظ کہا۔ اور یہ کہا کہ فرشتے انہیں لینے آچکے ہیں، اور حضورؐ کی سواری آرہی ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے آسماں کی جانب منہ کرتے ہوئے کلمہء شہادت پڑھا، اور اس دنیاء فانی سے رخصت ہوگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

جب یہ واقعہ ہمارے علم میں آیا، ہم نے فورآ اس کی تصدیق کے لیے اقدامات کیے۔ اور اس کے بارے میں مطمئن ہونے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اس درویش کی یہ افسانوی سی حقیقی داستان آپ تک ضرور پہنچائی جائے۔

دنیا کے انسائیکلوپیڈیا حیات بعد الممات کے بارے میں مباحث سے بھرے پڑے ہیں۔ تاہم، اس قسم کے محیرالعقول واقعات موجودہ سائنسی اور منطق سے بھرپور دور میں کم کم ہی سننے میں آتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ موصوف کی مغفرت کرے، اور جنت میں ان کے درجات بلند فرمائے۔ جناب حنیف اخگرؔ کی زندگی کے بارے میں ان کے عزیزو اقارب، دوستوں اور ملنے جلنے والوں، سب کا ہی کہنا ہے کہ موجودہ دور میں اس قسم کی مومنانہ، درویشانہ، اور متوازن زندگی، اور خاتمہ بالایمان کا تجربہ اور نظارہ نادر چیز ہے۔

آپ اس موضوع (اپنی موت کا یقینی علم، اور کشف الآخرت) پر اگر اپنی رائے کا عمومی اظہار کرنا چاہیں، تو جستجو میڈیا آپ کو ان صفحات پر خوش آمدید کہے گا۔

اس موضوع پر جناب حنیف اخگرؔ کے انتقال پر ملال کی خبر پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے:


http://www.defence.pk/forums/members-club/27593-158.html
 
.

Latest posts

Country Latest Posts

Back
Top Bottom