Bill Longley
SENIOR MEMBER
- Joined
- Apr 15, 2008
- Messages
- 1,667
- Reaction score
- 0
- Country
- Location
2003
مین پاکستانی فوج نے پہلی بار فاٹا مین
اوپریشن شروع کیا جس مین اب تک ۱۵۰۰ سے زیادہ فوجی شہید اور ہزارون زخمی ہو
چکے ہین اس کے علاوہ قبائیلیون کی شہادتین ھزارون مین ہین ۔ مشرف دور مین یہ نظریہ قبا ئیلی علاقون مین جڑ پکرنا شروع ہو گیا تھا کہ حکومت طالبان کے نام پر پختون قوم کو مار رہی ہے۔ اس بات کو بھارتی اور افغان حکومتون نے بھی کھل کر ھوا دی اور سینکرون ویب سائیٹس اور دیگر زرایع کو استمال کر تے پاکستان مخالف، اوپریشن کی وجہ سے پیدا ہونے والے جزبات کو بھرکانہ شروع کردیا۔ جس کی وجہ سے قبائیلی عوام مین بلخضوض اور پختون عوام مین بلعموم یہ تاثر ابھرنے لگا کے حکومت پختونون کے ساتھ ظلم کر رہی ہے۔ اور امریکہ کی خوشنودی کے لئے ان کا قتل عام ہو رہا ہے۔ اس بات کا اثر کتنا گہرا تھا اس کا اندازہ ایک سال پحلے کے اخبارات مین شایع ہونے والے قوم پرست، مزہبی اور لبرل پختون لیڈران کے بیانات سے لگایا جا سکتا ہے۔
طالبانیزیشن خود پختون قوم کے لئے ایک خطرا ہے۔ پاکستانی پختون جہان مزہب سے شدید محبت رکھتے ہین وہان ترقی پسند اور روادار بھی ہین۔ پختون قوم ایک جدت پسند اور مہنتی قوم ہے جبکہ طالبان تنگ نظری اور تعصب کا نام ہے۔ اتحادیون کے کابل مین داخلے کے بعد پختون قوم نے جس طالبانی نظام کے خلاف خوشی کا اظہار کیا تھا وہ سب نے ٹی وی مین دیکھا مگر جب امریکہ اور اتحادیون نے طالبان سے بڑھ کر شدت پسندی کا مظاہرا کیا اور طاقت کا بے دریغ استمال شروع کر دیا تو یہ ہی پختون طالبان کے ہمدرد بن گئے جسکی وجہ طالبان سے مہبت نہ تھی بلکہ پختون قوم کی روایات تھین جنہین کبھی اتحادیون نے سمجھنے کی زہمت نہین کی۔
مشرف دور مین پاکستانی حکومت نے جانتے یا دباو مین وہی غلطیان کین جو اتحادی افغانستان مین کر رہے تھے جس کی وجہ سے ملک میدان جنگ بن گیا۔ طاقت کے استعمال نے جہان پختونون مین غضب پیدا کیا وہان ملکبھر مین فوج کے خلاف جزبات کوبھی ہوا دی جسکا فوج کے مورال پر
برا اثر پرا
۔
جمہوری حکومت نے آتے ہی حکمت عملی کا جائزا لیا اور قبا یئل اور پختون عوام کو مزاکرات مین شامل کیا تاکہ ان کے تحفظات دور ہون اور وفاق اور مظبوط ہو سکے۔ اسکے لئے اتحادی جماعت اے این پی کی سربراہی مین قبائیل سے مزاکرات کا آغاز ہوا اور بلا آخر وہ کامیابیان جو طاقت کے استمال سے حاصل نہ ہو سکین وہ مزاکرات سے حاصل ہو گئین۔ آج وہی قبائیل جو طالبان کا ساتھ ریاستی فوج کشی کی وجہ سے دی رہے تھے، آج ملک کی سلامتی کے لئے طالبان کے خلاف اٹھ رہے ہین۔
بعض حلقےقبائیلی لشکربنانے کی حکومتی پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہین اور اسے قبائیلی علاقون مین بالکنائزیش کی سازش کا حصہ قرار دے رہے ھین۔ جبکہ بعض کے نزدیق قبا ئیل کی مدد سے ہی اس مسلہ کا حل نکل سکتا ہے کیونکہ قبا ئیلی روایات کو سمجھے بغیر طاقت کا استمال سوائے مسلئہ کو اور گھمبیر بنانے کے اور کوئی فائدا نہین دے گا۔
اورکزآئی مین پچھلے دنون ھونے والے علی زآئی قبیلے کے جرگے اور حالیہ دھماکون سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ طالبان اضطراب کا شکار ہین اور جان گئے ہین کے ان کی پناہ گاہین ختم ہو رہی ہین اور ان کے حامی ان سے دور ہو رہے ھین ان کی طرف سے دھمکیان اور کاروایان ان کی حالت بتا رہی ہین۔
ضرورت اس امر کی ہے حکومت ثابت قدمی سے کام لیتے ہوئے خود طاقت کے استمال سے اجتناب کرے اور قبائیل کے زریعہ طالبان کو قابو کرے۔ اس مرحلے پران امن پسند پختونون کی مالی اخلاقی مدد کے تا کہ وہ طالبان کو کنٹرول کر سکین۔ اس مرحلے مین قبائیلی علاقون مین ترقی اور تعلیم کے فروغ اور معاشی حالات پر مکمل توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تاریخ گواہ ہے یہ قبائیلی پاکستان کا اصل محافظ ہین جنہون نے ہمیشہ وطن کی پکار پر لبیک کہا۔ آج کچھ مما لک یہ چا ہتے ہین کے ہم سے ہمارے ہی ہاتھ چھین لین لیکن اگر ہم سر اٹھا کر ایک رہنا چاہتے ہین تو ہمین اپنے دشمنون کی ہر سازش مل کر اور بغیر کسی کی پروا کئے
مین پاکستانی فوج نے پہلی بار فاٹا مین
اوپریشن شروع کیا جس مین اب تک ۱۵۰۰ سے زیادہ فوجی شہید اور ہزارون زخمی ہو
چکے ہین اس کے علاوہ قبائیلیون کی شہادتین ھزارون مین ہین ۔ مشرف دور مین یہ نظریہ قبا ئیلی علاقون مین جڑ پکرنا شروع ہو گیا تھا کہ حکومت طالبان کے نام پر پختون قوم کو مار رہی ہے۔ اس بات کو بھارتی اور افغان حکومتون نے بھی کھل کر ھوا دی اور سینکرون ویب سائیٹس اور دیگر زرایع کو استمال کر تے پاکستان مخالف، اوپریشن کی وجہ سے پیدا ہونے والے جزبات کو بھرکانہ شروع کردیا۔ جس کی وجہ سے قبائیلی عوام مین بلخضوض اور پختون عوام مین بلعموم یہ تاثر ابھرنے لگا کے حکومت پختونون کے ساتھ ظلم کر رہی ہے۔ اور امریکہ کی خوشنودی کے لئے ان کا قتل عام ہو رہا ہے۔ اس بات کا اثر کتنا گہرا تھا اس کا اندازہ ایک سال پحلے کے اخبارات مین شایع ہونے والے قوم پرست، مزہبی اور لبرل پختون لیڈران کے بیانات سے لگایا جا سکتا ہے۔
طالبانیزیشن خود پختون قوم کے لئے ایک خطرا ہے۔ پاکستانی پختون جہان مزہب سے شدید محبت رکھتے ہین وہان ترقی پسند اور روادار بھی ہین۔ پختون قوم ایک جدت پسند اور مہنتی قوم ہے جبکہ طالبان تنگ نظری اور تعصب کا نام ہے۔ اتحادیون کے کابل مین داخلے کے بعد پختون قوم نے جس طالبانی نظام کے خلاف خوشی کا اظہار کیا تھا وہ سب نے ٹی وی مین دیکھا مگر جب امریکہ اور اتحادیون نے طالبان سے بڑھ کر شدت پسندی کا مظاہرا کیا اور طاقت کا بے دریغ استمال شروع کر دیا تو یہ ہی پختون طالبان کے ہمدرد بن گئے جسکی وجہ طالبان سے مہبت نہ تھی بلکہ پختون قوم کی روایات تھین جنہین کبھی اتحادیون نے سمجھنے کی زہمت نہین کی۔
مشرف دور مین پاکستانی حکومت نے جانتے یا دباو مین وہی غلطیان کین جو اتحادی افغانستان مین کر رہے تھے جس کی وجہ سے ملک میدان جنگ بن گیا۔ طاقت کے استعمال نے جہان پختونون مین غضب پیدا کیا وہان ملکبھر مین فوج کے خلاف جزبات کوبھی ہوا دی جسکا فوج کے مورال پر
برا اثر پرا
۔
جمہوری حکومت نے آتے ہی حکمت عملی کا جائزا لیا اور قبا یئل اور پختون عوام کو مزاکرات مین شامل کیا تاکہ ان کے تحفظات دور ہون اور وفاق اور مظبوط ہو سکے۔ اسکے لئے اتحادی جماعت اے این پی کی سربراہی مین قبائیل سے مزاکرات کا آغاز ہوا اور بلا آخر وہ کامیابیان جو طاقت کے استمال سے حاصل نہ ہو سکین وہ مزاکرات سے حاصل ہو گئین۔ آج وہی قبائیل جو طالبان کا ساتھ ریاستی فوج کشی کی وجہ سے دی رہے تھے، آج ملک کی سلامتی کے لئے طالبان کے خلاف اٹھ رہے ہین۔
بعض حلقےقبائیلی لشکربنانے کی حکومتی پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہین اور اسے قبائیلی علاقون مین بالکنائزیش کی سازش کا حصہ قرار دے رہے ھین۔ جبکہ بعض کے نزدیق قبا ئیل کی مدد سے ہی اس مسلہ کا حل نکل سکتا ہے کیونکہ قبا ئیلی روایات کو سمجھے بغیر طاقت کا استمال سوائے مسلئہ کو اور گھمبیر بنانے کے اور کوئی فائدا نہین دے گا۔
اورکزآئی مین پچھلے دنون ھونے والے علی زآئی قبیلے کے جرگے اور حالیہ دھماکون سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ طالبان اضطراب کا شکار ہین اور جان گئے ہین کے ان کی پناہ گاہین ختم ہو رہی ہین اور ان کے حامی ان سے دور ہو رہے ھین ان کی طرف سے دھمکیان اور کاروایان ان کی حالت بتا رہی ہین۔
ضرورت اس امر کی ہے حکومت ثابت قدمی سے کام لیتے ہوئے خود طاقت کے استمال سے اجتناب کرے اور قبائیل کے زریعہ طالبان کو قابو کرے۔ اس مرحلے پران امن پسند پختونون کی مالی اخلاقی مدد کے تا کہ وہ طالبان کو کنٹرول کر سکین۔ اس مرحلے مین قبائیلی علاقون مین ترقی اور تعلیم کے فروغ اور معاشی حالات پر مکمل توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تاریخ گواہ ہے یہ قبائیلی پاکستان کا اصل محافظ ہین جنہون نے ہمیشہ وطن کی پکار پر لبیک کہا۔ آج کچھ مما لک یہ چا ہتے ہین کے ہم سے ہمارے ہی ہاتھ چھین لین لیکن اگر ہم سر اٹھا کر ایک رہنا چاہتے ہین تو ہمین اپنے دشمنون کی ہر سازش مل کر اور بغیر کسی کی پروا کئے