کینیڈا میں اردو روشنی کے مینار: منیف اشعر ملیح آبادی
از: محمد بن قاسم، مدیر اعلی، جستجو میڈیا
کینیڈا ایک ملی جلی بین الاقوامی معاشرتی اور سماجی میل جول رکھنے والی سرزمین ہے۔ اس کے باشندوں میں اردو اور ہندی بولنے، سمجھنے، لکھنے پڑھنے والے شامل ہیں۔
سید منیف اشعر ملیح آبادی، ٹورونٹو، ان اردو شاعروں کی نمائندگی کرتے ہیں، جنہوں نے جدید اردو شاعری پر اپنے قلم و فکر کا ایک سکـہ جما دیا ہے، اور لازوال نقوش ثبت کیے ہیں؛ خاص طور پر غزل کے میدان میں۔
اردو میں "غزل" کے معنی عورتوں، اپنے محبوب سے باتیں کرنا ہے۔ مگر یہ ایک روایتی تعریف ہے۔ جدید دور میں نظم اور غزل کی ہئیت گھل مل گئی ہے اور غزل مسلسل کے دائرہ میں دنیا جہاں کے موضوعات کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ منیف اشعر کے کلام میں یہ پہلو خاصہ روشن نظر آتا ہے۔ وہ شاعری کو رومانوی فلسفہ کی معراج تک لیجاتے نظر آتے ہیں۔
جستجو میڈیا، کراچی، بزم فانوس، ٹورونٹو کے تعاون سے، اور گوگل کی تکنیکی مدد کے ذریعہ، اردو شاعری کے شاہ کار انٹرنیٹ پر ملٹی میڈیا ویب کتابوں کی شکل میں پیش کررہا ہے۔ منیف اشعر کے مجموعہ کلام سے پہلے ایک کلاسیکی اردو شاعر مولانا محمد ابوبکر مصور کا کلام ایک ویب کتاب کی شکل میں پیش کیا جاچکا ہے۔
منیف اشعر کی شاعری کو مشفق خواجہ، ڈاکٹر فرمان فتحپوری، راغب مراد آبادی، پروفیسر سحر انصاری، پروفیسر آفاق صدیقی، اور محسن بھوپالی جیسے نقادوں نے خراج تحسین پیش کیا ہے۔
منیف اشعر کے چند منتخب اشعار اس مضمون میں شامل کیے جارہے ہیں۔
Canada boasts a rich socio-cultural mix. This includes Asian- Canadians who speak Urdu, or its variant Hindi.
Syed Munif Ashar Malihabadi, Toronto, represents one of the modern Urdu poets, who have left an indelible mark on Urdu poetry, espeically in its Ghazal genre. Ghazal in Urdu translates in to "talking to women", or "communicating with one's beloved". This definition, however, is classical and modern poetic expressions extend far beyond this narrow domain, and all the matters of life's philosophy are now treated in Ghazal frameworks.
Justuju Media, in association with Bazme Fanoos, Toronto, has brought one of the 3 poetry collections of Munif Ashar منیف اشعر on to the Internet. This is in the form of an eBook online using Google's servers at BlogSpot.
This is the second offering from Justuju, after it already successfully brought Maulana Mohammad Abubaker Musavvir's Classical Urdu Kalaam (Poetry) to the World of Urdu on the Internet.
Munif Ashar's poetry has been described by the Urdu greats, such as Dr. Farman Fatehpuri, Raghib Muradabadi, Professor Saher Ansari, Professor Afaq Siddiqui, Mushfiq Khawaja, and Mohsin Bhopali, as one of the most finest and representative of Modern Urdu Poetic Romanticism.
Read the Web Book here:
Diwane Ashar Malihabadi دیوان اشعر ملیح آبادی
Munif Ashar has come out as an outspoken philosopher, and sociologist, in his heart rendering Urdu poetry. Some of his selective lines from Talkh wa Shireen:
ندرتِ خیال - تلخ و شیریں
The Poetic Excellence of Munif Ashar in "Talkh wa Shireen"
Book Excerpt:
نُدرَتِ خیال
[منتخب اشعار]
تلخ و شیریں
The Poetic Excellence of Munif Ashar - First Collection "Talkh wa Shireen"
مُضطرب آنکھوں کا طرزِ گفتگو اچھا لگا
اُن کو پہلی بار حَرفِ آرزو اچھا لگا
تجھ کو دیکھا ہی کہاں دنیا نے میری آنکھ سے
ورنہ ہر لب پر یہی ہوتا کہ توُ اچھا لگا
ترے خیال کی دنیا سجا رہا ہوں میں
بس ایک کلی سے گلستاں بنا رہا ہوں میں
یہ حسرت ساتھ ہی جائے گی شاید
محبت بے غرض ملتی کسی سے
تری یادوں کی خوشبو سے کوئی منظر بنالوں گا
غزل کہدوں گا اور تیرا حسیں پیکربنالوں گا
چمن میں کیسے تری داستاں بیاں کرلوں
ہر ایک پھول کو کیا اپنا راز داں کرلوں
خواہشِ گریہ کو پلکوں تک نہ آنا چاہیے
آبروئے غم بکھرنے سے بچانا چاہیے
سبب نہ پوچھیے ان آنسوئوں کا اے اشعر
کسی کو یاد کیا تھا ابھی ابھی میں نے
اعتبار اک شخص پر یوں عمر بھر کرتے رہے
وعدہء فردا پہ ہر شب کی سحر کرتے رہے
تنگ اور ہوتا گیا کچھ اس کی یادوں کا حصار
جس قدر ہم بھول جانے کی دعا کرتے رہے
کیا سانحہ ہے اہل جنوں میں بھی اب کوئی
جنس وفا کا چاہنے والا نہیں رہا
مل نہ پائی مختصر سی زندگی میں آگہی
عمر بھر لیکن یہ کارِ جستجو اچھا لگا
لبوں پہ اپنے تبسّم سجائے رکھتے ہیں
جو عشق کرتے ہیں، آہ و فغاں نہیں کرتے
خیال تھا کہ یہ مغرب تو مثل جنّت ہے
اسی بہانے جہنّم بھی دیکھ لی ہم نے
وہ جو ایمان لے گئی ہوگی
کوئی کافر ادا رہی ہوگی
مجھ کو بے چین کررہی ہے صبا
اُن کو چھُو کر اِدھر چلی ہوگی
دل کے لُٹ جانے کی روداد سرِ بزم انہیں
آنکھوں آنکھوں میں سنا دو تو غزل ہوتی ہے
اس کے رُخ سے نقاب کیا اٹھی
کھو گیا اپنا حسن گویائی
ان سے کیا ہوسکے شناسائی
ہم سے ہوتی نہیں جبیں سائی
لکھتا رہا قصیدہ جو حاکم کی شان میں
دورِ جدید کا وہ قلم کار ہوگیا
نفرتیں احباب کی یوں دوستی کے ساتھ ہیں
جیسے نادیدہ اندھیرے، روشنی کے ساتھ ہیں
آئینہ دیکھ کر ہوا محسوس
خود تماشا ہیں خود تماشائی
گھر آپ کا بھی دور نہیں رہ گیا ہے اب
اتنا وسیع حلقہء آتش نہ کیجیے
دل میں جب اس کے کوئی جیت کا امکاں نہ رہے
دفعتاً خود کو ہرا دو تو غزل ہوتی ہے
جو تمہیں دے کے چلا ہجِرِ مُسلسل کی سزا
اس کو جینے کی دعا دو تو غزل ہوتی ہے
از: محمد بن قاسم، مدیر اعلی، جستجو میڈیا
کینیڈا ایک ملی جلی بین الاقوامی معاشرتی اور سماجی میل جول رکھنے والی سرزمین ہے۔ اس کے باشندوں میں اردو اور ہندی بولنے، سمجھنے، لکھنے پڑھنے والے شامل ہیں۔
سید منیف اشعر ملیح آبادی، ٹورونٹو، ان اردو شاعروں کی نمائندگی کرتے ہیں، جنہوں نے جدید اردو شاعری پر اپنے قلم و فکر کا ایک سکـہ جما دیا ہے، اور لازوال نقوش ثبت کیے ہیں؛ خاص طور پر غزل کے میدان میں۔
اردو میں "غزل" کے معنی عورتوں، اپنے محبوب سے باتیں کرنا ہے۔ مگر یہ ایک روایتی تعریف ہے۔ جدید دور میں نظم اور غزل کی ہئیت گھل مل گئی ہے اور غزل مسلسل کے دائرہ میں دنیا جہاں کے موضوعات کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ منیف اشعر کے کلام میں یہ پہلو خاصہ روشن نظر آتا ہے۔ وہ شاعری کو رومانوی فلسفہ کی معراج تک لیجاتے نظر آتے ہیں۔
جستجو میڈیا، کراچی، بزم فانوس، ٹورونٹو کے تعاون سے، اور گوگل کی تکنیکی مدد کے ذریعہ، اردو شاعری کے شاہ کار انٹرنیٹ پر ملٹی میڈیا ویب کتابوں کی شکل میں پیش کررہا ہے۔ منیف اشعر کے مجموعہ کلام سے پہلے ایک کلاسیکی اردو شاعر مولانا محمد ابوبکر مصور کا کلام ایک ویب کتاب کی شکل میں پیش کیا جاچکا ہے۔
منیف اشعر کی شاعری کو مشفق خواجہ، ڈاکٹر فرمان فتحپوری، راغب مراد آبادی، پروفیسر سحر انصاری، پروفیسر آفاق صدیقی، اور محسن بھوپالی جیسے نقادوں نے خراج تحسین پیش کیا ہے۔
منیف اشعر کے چند منتخب اشعار اس مضمون میں شامل کیے جارہے ہیں۔
Canada boasts a rich socio-cultural mix. This includes Asian- Canadians who speak Urdu, or its variant Hindi.
Syed Munif Ashar Malihabadi, Toronto, represents one of the modern Urdu poets, who have left an indelible mark on Urdu poetry, espeically in its Ghazal genre. Ghazal in Urdu translates in to "talking to women", or "communicating with one's beloved". This definition, however, is classical and modern poetic expressions extend far beyond this narrow domain, and all the matters of life's philosophy are now treated in Ghazal frameworks.
Justuju Media, in association with Bazme Fanoos, Toronto, has brought one of the 3 poetry collections of Munif Ashar منیف اشعر on to the Internet. This is in the form of an eBook online using Google's servers at BlogSpot.
This is the second offering from Justuju, after it already successfully brought Maulana Mohammad Abubaker Musavvir's Classical Urdu Kalaam (Poetry) to the World of Urdu on the Internet.
Munif Ashar's poetry has been described by the Urdu greats, such as Dr. Farman Fatehpuri, Raghib Muradabadi, Professor Saher Ansari, Professor Afaq Siddiqui, Mushfiq Khawaja, and Mohsin Bhopali, as one of the most finest and representative of Modern Urdu Poetic Romanticism.
Read the Web Book here:
Diwane Ashar Malihabadi دیوان اشعر ملیح آبادی
Munif Ashar has come out as an outspoken philosopher, and sociologist, in his heart rendering Urdu poetry. Some of his selective lines from Talkh wa Shireen:
ندرتِ خیال - تلخ و شیریں
The Poetic Excellence of Munif Ashar in "Talkh wa Shireen"
Book Excerpt:
نُدرَتِ خیال
[منتخب اشعار]
تلخ و شیریں
The Poetic Excellence of Munif Ashar - First Collection "Talkh wa Shireen"
مُضطرب آنکھوں کا طرزِ گفتگو اچھا لگا
اُن کو پہلی بار حَرفِ آرزو اچھا لگا
تجھ کو دیکھا ہی کہاں دنیا نے میری آنکھ سے
ورنہ ہر لب پر یہی ہوتا کہ توُ اچھا لگا
ترے خیال کی دنیا سجا رہا ہوں میں
بس ایک کلی سے گلستاں بنا رہا ہوں میں
یہ حسرت ساتھ ہی جائے گی شاید
محبت بے غرض ملتی کسی سے
تری یادوں کی خوشبو سے کوئی منظر بنالوں گا
غزل کہدوں گا اور تیرا حسیں پیکربنالوں گا
چمن میں کیسے تری داستاں بیاں کرلوں
ہر ایک پھول کو کیا اپنا راز داں کرلوں
خواہشِ گریہ کو پلکوں تک نہ آنا چاہیے
آبروئے غم بکھرنے سے بچانا چاہیے
سبب نہ پوچھیے ان آنسوئوں کا اے اشعر
کسی کو یاد کیا تھا ابھی ابھی میں نے
اعتبار اک شخص پر یوں عمر بھر کرتے رہے
وعدہء فردا پہ ہر شب کی سحر کرتے رہے
تنگ اور ہوتا گیا کچھ اس کی یادوں کا حصار
جس قدر ہم بھول جانے کی دعا کرتے رہے
کیا سانحہ ہے اہل جنوں میں بھی اب کوئی
جنس وفا کا چاہنے والا نہیں رہا
مل نہ پائی مختصر سی زندگی میں آگہی
عمر بھر لیکن یہ کارِ جستجو اچھا لگا
لبوں پہ اپنے تبسّم سجائے رکھتے ہیں
جو عشق کرتے ہیں، آہ و فغاں نہیں کرتے
خیال تھا کہ یہ مغرب تو مثل جنّت ہے
اسی بہانے جہنّم بھی دیکھ لی ہم نے
وہ جو ایمان لے گئی ہوگی
کوئی کافر ادا رہی ہوگی
مجھ کو بے چین کررہی ہے صبا
اُن کو چھُو کر اِدھر چلی ہوگی
دل کے لُٹ جانے کی روداد سرِ بزم انہیں
آنکھوں آنکھوں میں سنا دو تو غزل ہوتی ہے
اس کے رُخ سے نقاب کیا اٹھی
کھو گیا اپنا حسن گویائی
ان سے کیا ہوسکے شناسائی
ہم سے ہوتی نہیں جبیں سائی
لکھتا رہا قصیدہ جو حاکم کی شان میں
دورِ جدید کا وہ قلم کار ہوگیا
نفرتیں احباب کی یوں دوستی کے ساتھ ہیں
جیسے نادیدہ اندھیرے، روشنی کے ساتھ ہیں
آئینہ دیکھ کر ہوا محسوس
خود تماشا ہیں خود تماشائی
گھر آپ کا بھی دور نہیں رہ گیا ہے اب
اتنا وسیع حلقہء آتش نہ کیجیے
دل میں جب اس کے کوئی جیت کا امکاں نہ رہے
دفعتاً خود کو ہرا دو تو غزل ہوتی ہے
جو تمہیں دے کے چلا ہجِرِ مُسلسل کی سزا
اس کو جینے کی دعا دو تو غزل ہوتی ہے