یہ دعا ہے آتشِ عشق میں تو بھی میری طرح جلا کرے
نہ نصیب ہو تجھے ہنسنا، تیرے دل میں درد اٹھا کرے
زلفیں کھولے اور چشم تر، تیرے لب پہ نالۂ سوزگر
تو میری تلاش میں دربدر لئے دل کو اپنے پھرا کرے
تو بھی چوٹ کھائے او بے وفا، آئے دل دکھانے کا پھر مزا
کرے آہ و زاریاں درد، مجھے بے وفا تو کہا کرے
رہے نامراد رقیب تو، نہ خدا دکھائے تجھے خوشیاں
نہ نصیب شربت دل ہو، سدا زہرِ غم تو پیا کرے
تجھے مرض ہو تو ایسا ہو، جو دنیا میں لاعلاج ہو
تیری موت تیرا شباب ہو، تو تڑپ تڑپ کے جیا کرے
تیرے سامنے تیرا گھر جلے، تیرا بس چلے نہ بجھا سکے
تیرے منہ سے نکلے یہی دعا کہ نہ گھر کسی کا جلا کرے
تجھے میرے ہی سے خلش رہے، تجھے میری ہی تپش رہے
جیسے تو نے میرا جلایا دل، ویسے تیرا بھی دل جلا کرے
جو کسی کے دل کو دکھائے گا، وہ ضرر ضرور اٹھائے گا
وہ سزا زمانے سے پائے گا، جو کسی سے مل کر دغا کرے
تیرا شوق مجھ سے ہو پیکرانہ، تیری آرزوئیں بھی ہوں جوان
مگر عین عہدِ بہار میں، لٹے باغ تیرا خدا کرے
خدا کرے آئے وہ بھی دن، تجھے چین آئے نہ مجھ بن
تو گلے ملے، میں پرے ہٹوں، میری منتیں تو کیا کرے
(جگر مراد آبادی)