راولپنڈی سے براستہ موٹروے لاہور جاتے ہوئے تقریباً 70 کلومیٹر کے فاصلے پر ‘چکری‘ کا گاؤں آتا ہے۔ اس گاؤں میں ایک سفید رنگ کا بلند بالا چوبارہ ہر گزرنے والے کی توجہ کا مرکز رہتا ہے۔ اس چوبارہ سے دریائے سواں اور لہلہاتے کھیتوں کا دلفریب نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ بریگیڈیئر فتح علی خان کی رہائش گاہ ہے جو کم و بیش سو سال قبل تعمیر ہوئی اور آج بھی اپنی پوری شان و شوکت سے قائم ہے۔
68 سال قبل اس حویلی میں پاکستان کے نامور سیاستدان چوہدری نثار علی خان نے آنکھ کھولی۔ بریگیڈیئر فتح علی خان کے راولپنڈی کی دھمیال روڈ پر منتقل ہونے تک یہ حویلی آباد رہی۔ مگر دھمیال روڈ منتقل ہونے کے ساتھ ہی اس حویلی کی تمام رونقیں بریگیڈیئر فتح علی خان اپنے ساتھ لے گئے۔
صرف خوشی، غمی یا عام انتخابات کے موقع پر یہ حویلی آباد ہوتی۔ لیکن چوہدری نثار علی خان نے کم و بیش چھ سال قبل اس اجڑی ہوئی حویلی کی از سر نو تزئین و آرائش کروائی۔
چونکہ یہ حویلی بلندی پر واقع ہے، اس کا ‘چوبارہ‘ میلوں دور سے نظر آتا ہے۔ یہ موٹروے پر رواں دواں لوگوں کو اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ چوہدری نثار علی خان نہ ہوتے تو یہ موٹروے یہاں سے نہ گزرتی۔
چوہدری نثار علی خان نے کم و بیش ایک سال قبل ایک ملاقات میں قبل از وقت انتخاب کی پیشگوئی کی تھی۔ شاید اسی لیے انھوں نے کچھ عرصے سے ان ممکنہ انتخابات کی تیاری شروع کر دی تھی۔ یہی وجہ ہے وہ اب ہفتے میں تین چار روز چکری میں قیام کرتے ہیں اور اپنے حلقوں این اے 59 اور 62 کے ووٹرز سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔
حال ہی میں، میں نے ‘تنہائی‘ پسند چوہدری نثار علی خان کو اپنے حلقوں کے عوام میں خوش و خرم دیکھا۔ اس موقعے پر حویلی کی فضا ان ووٹروں کے قہقہوں سے گونج رہی تھی۔ مجھے ایک نئے چوہدری نثار نظر آئے جو اپنے حلقہ کے ہر شخص کا نام لے کر گفتگو کر رہے تھے۔
25 جولائی 2018 کے انتخابات کی شکست نے چوہدری نثار علی خان کو چپ ہی لگا دی تھی۔ انھوں نے عام لوگوں سے ملاقاتیں ترک کر دیں۔ تقاریب میں تو وہ جاتے ہی نہیں تھے۔ رہی سہی کسر کووڈ 19 کی وبا نے نکال دی۔
چوہدری نثار کی سرگرمیاں محدود ہو کر رہ گئیں۔ لہٰذا ان کی ‘گوشہ نشینی‘ طرح طرح کی افواہوں کا باعث بنتی رہی۔
،تصویر کا ذریعہAFP CONTRIBUTOR
کبھی ان کے سر پر وزارت اعلیٰ پنجاب کا تاج سجا دیا جاتا، کبھی ان کی 25 سے زائد مسلم لیگی ارکانِ قومی اسمبلی کے ساتھ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی ‘خبر‘ چلا دی جاتی۔ جن لوگوں کی چوہدری نثار علی خان کے سائے تک رسائی نہیں، وہ بھی ان کے بارے من گھڑت افواہیں پھیلاتے رہتے ہیں۔
ادھر چوہدری نثار علی خان نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے جس سے افواہوں کو تقویت ملتی ہے۔ میں نے چکری میں بریگیڈیئر فتح علی خان حویلی میں چوہدری نثار علی خان سے تفصیلی ملاقات کی اور ان کے بارے میں سیاسی بازار میں گردش کرنے والی کہانیوں کی حقیقت جاننے کی کوشش کی۔
مگر یہ ایک غیر رسمی ملاقات تھی جس میں کچھ باتیں آن دی ریکارڈ تھیں، کچھ آف دی ریکارڈ۔ البتہ میرے ذہن میں کچھ سوالات تھے جن کا میں جواب حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ان سوالات کا خلاصہ ہمارے قائرین کے لیے پیشِ خدمت ہے۔
‘چوہدری صاحب! آپ چکری میں اپنی حویلی میں پر سکون بیٹھے ہوئے ہیں، ٹی وی چینلز پر آپ کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی خبریں چل رہی ہیں۔ اس میں کس حد تک صداقت ہے؟ خود وزیر اعظم نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کی آپ سے ملاقات ہوئی ہے۔‘
چوہدری نثار علی خان مسکرا دیے اور کہا کہ ‘پچھلے تین چار روز سے میں چکری میں ہوں۔ یہاں سے باہر نہیں گیا تو پھر وزیر اعظم عمران خان سے میری ملاقات کہاں ہوئی ہو گی؟ پچھلے ہفتے، مہینے یا سال تو کوئی ملاقات نہیں ہوئی، تو پھر کب ملاقات ہوئی!‘
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
انھوں نے کہا کہ ‘میں چوری چھپے ملاقات کرنے والا نہیں ہوں۔ عمران خان میرا ایچیسن کالج سے دوست ہے لیکن میری اپنی سیاست ان کی اپنی سیاست۔‘
‘کیا آپ پی ٹی آئی کے 27مارچ 2022 کو پریڈ گراؤنڈ میں منعقد ہونے والے جلسے کو رونق بخش رہے ہیں؟‘
انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں اس افواہ کی تردید کی اور کہا کہ ‘مجھے پی ٹی آئی کے جلسے میں شرکت کی کوئی دعوت ملی ہے اور نہ ہی میں جلسے میں شرکت کر رہا ہوں۔‘
’میں وقتی فائدے کے لیے پارٹی بدلنے والا نہیں‘
میں نے لوہا گرم دیکھ کر ایک اور سوال داغ دیا ‘چوہدری صاحب! آپ کس پارٹی کو جوائن کر رہے ہیں؟‘
ان کے چہرے پر خفگی نمایاں نظر آنے لگی۔ انھوں نے کہا کہ ‘آپ مجھے جانتے ہیں، میں وقتی فائدہ کے لیے پارٹی بدلنے والا نہیں۔ 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ نہ دیے جانے پر کوئی پارٹی جوائن نہ کی۔ اب چار سال گزر گئے ہیں، مجھے کوئی پارٹی جوائن کرنے کی جلدی نہیں۔ آپ کو جواب عام انتخابات کے وقت مل جائے گا۔‘
انھوں نے اپنے ووٹرز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘میرے ووٹرز نے مجھے اپنی کشتی کا ملاح بنایا ہے، میں ان سے مشاورت کروں گا کہ اس کشتی کو میں کس جانب لے کر چلوں۔ مشاورت کے بعد ملاح کشتی کی سمت کا تعین کرے گا۔ اگر میرے حلقوں کے ووٹرز نے کہا کہ آزاد حیثیت سے انتخاب لڑو، تو میں ان کے فیصلے کے سامنے سر تسلیمِ خم کر دوں گا۔ اگر انھوں نے اس سے مختلف رائے دی تو اس کو پیش نظر رکھ کر فیصلہ کروں گا۔‘
‘وادی سواں کے عوام نے مجھے مسلسل آٹھ بار قومی اسمبلی کا رکن منتخب کر کے پارلیمنٹ بھجوایا ہے اور مجھ پر وادی سواں کے لوگوں کا قرض ہے جسے میں ان کی خدمت کر کے ہی اتار رہا ہوں۔‘
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
‘چوہدری صاحب! آپ کے سیاسی مخالفین کا کہنا ہے چار سالہ خاموشی نے آپ کے سیاسی کیریئر کو گہنا دیا ہے۔‘
میرے اس سوال پر انھوں نے پہلو بدلتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا ‘جب تک رب العزت ذات کسی کی سیاست ختم نہ کر دے اس وقت تک کوئی کسی کو سیاست سے آؤٹ نہیں کر سکتا۔‘
’چار مرتبہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ طشتری میں پیش کی گئی‘
انھوں نے میرے استفسار پر بتایا کہ ‘والد محترم بریگیڈیئر فتح علی خان مغربی پاکستان کی اسمبلی کے رکن رہے۔ ان کی وفات کے بعد جائیداد کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو میں نے اپنی جنم بھومی (اس حویلی) کا انتخاب کیا کیونکہ میری سیاست وادی سواں کے عوام سے ہے۔ میں اس حویلی میں آکر بہت خوش ہوتا ہوں۔ بچپن کی یادیں تازہ کرتا ہوں۔ میرے گھر کے سامنے سے دریائے سواں گزرتا ہے۔ اس کا نظارہ ہی کچھ اور ہے۔‘
‘چوہدری صاحب! کیا آپ صرف این 59 سے ہی انتخاب لڑیں گے؟‘
چوہدری صاحب نے کہا ‘کس نے آپ کو کہا ہے میں صرف اسی حلقے سے انتخاب لڑوں گا؟ میرا حلقہ واہ ٹیکسلا سے وادی سواں تک پھیلا ہوا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں مجھے ہروانے کے لیے میرے حلقہ کی تقسیم اس طرح کی گئی کہ وادی سواں کے ووٹوں کو دو حصوں منقسم کر دیا گیا لیکن اس کے باوجود میرے حلقہ کے عوام نے دونوں حلقوں سے مجھے بھاری ووٹوں سے کامیاب کروا کر پارلیمنٹ بھجوایا۔ میں این اے 59 اور 62 دونوں سے انتخاب لڑوں گا، کسی کو کوئی شک و شبہ نہ رہے۔‘
‘چوہدری صاحب آپ نے چار سال سے چپ کا روزہ رکھا ہوا اور اب اس کو کس طرح توڑیں گے؟‘
انھوں نے کہا کہ ‘ماضی میں ایک بار نہیں چار بار وزارت اعلیٰ پنجاب طشتری میں پیش کی گئی۔ نہ جانے مجھے کیا کیا سیاسی لالچ دیے گئے لیکن میرے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ میں چور دروازے سے اقتدار کی دہلیز پر قدم نہیں رکھوں گا۔ عوام کے ووٹوں کی قوت سے پارلیمان میں جا کر فیصلہ کروں کہ مجھے کیا کرنا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
چوہدری نثار حلف نہ اٹھا سکے، عدالت جانے کا اعلان
پارلیمانی سیاست کا مجبور شہسوار
مادرپدر آزاد سوشل میڈیا قبول نہیں: نثار
’اداروں کے درمیان ٹویٹس پر بات نہیں ہوتی‘
’میرا کوئی سوشل میڈیا اکاؤنٹ نہیں‘
سوشل میڈیا کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ‘سوشل میڈیا پر میرا کوئی اکاؤنٹ نہیں، کچھ میرے مداحوں نے کھول رکھے ہیں۔ ان کے لاکھوں فالورز ہیں۔ ان سے کبھی شکایت پیدا نہیں ہوئی البتہ سیاسی مخالفین نے میرے نام سے جعلی اکاؤنٹس بنا رکھے ہیں۔ ان کے ذریعے غلط معلومات پھیلائی جاتی ہیں۔ میرے لیے اس طرح کی ہر غلط معلومات کا جواب دینا ممکن نہیں۔ میں نے ان جعلی اکاؤنٹس کا سراغ لگانے کے لیے ایف آئی اے سے رجوع کیا ہے۔ انشا اللہ میں اپنا آفیشل اکاؤنٹ کھول رہا ہوں جس سے ڈس انفارمیشن کی حوصلہ شکنی ہو گی۔‘
ملک کے معاشی حالات کے بارے میں چوہدری نثار علی خان نے کہا ‘ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گیا ہے۔ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرضوں کی بروقت ادائیگی ہے۔ اس بارے میں پوری قوم کو سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی معاشی پالیسی بنانی چاہیے، جس پر پوری قوم کا اتفاق رائے ہو، اس پالیسی کی تمام سیاسی جماعتوں کو اونر شپ لینی چاہیے۔۔۔۔ ملک بند گلی میں دھکیل دیا گیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن سب بند گلی میں کھڑے ہیں اس وقت ملک و قوم کو بند گلی سے نکالنے کی ضرورت ہے۔‘
’میری پارٹی میں آ جاؤ سب اختیارات دے دوں گا‘
چوہدری نثار علی خان کی عمران خان سے 2018 کے انتخابات سے چند روز قبل میجر (ر) عامر کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں عمران خان نے انھیں پارٹی میں اہم عہدہ دینے کی پیشکش کی تھی اور کہا کہ ‘چوہدری نثار علی خان میری پارٹی میں آجاؤ، سب اختیارات آپ کو دے دوں گا، پارٹی ٹکٹ بھی آپ کی صوابدید پر ہوں گے۔‘
لیکن چوہدری نثار علی خان نے پی ٹی آئی میں شمولیت سے انکار کر دیا اور کہا کہ ‘عمران خان جس شخص کے ساتھ میں نے 35 سال رفاقت کی، اس کے ساتھ نہ چل سکا۔ آپ کے ساتھ تو ایک روز بھی نہ چل سکوں گا۔‘
اس پر عمران خان نے کہا کہ ‘نواز شریف تو کرپٹ ہے۔ میرا کیریئر تو صاف ستھرا ہے آپ میرے ساتھ کیوں نہیں آجاتے۔‘
چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ‘میاں نواز شریف مجھے ناپسند کرتے ہیں اور میں بھی ان کے بارے میں ایسے ہی جذبات رکھتا ہوں لیکن میں انھیں کرپٹ نہیں کہتا۔ غیب کا علم اللہ تعالی جانتا ہے، میں نے ان کے قریب کرپشن نہیں دیکھی۔ اگر میری نظروں سے ایسی
بات گزرتی تو میں کب کا ان کو چھوڑ چکا ہوتا۔‘
چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ‘ماضی میں ایک بار نہیں چار بار وزارت اعلیٰ پنجاب طشتری میں پیش کی گئی۔ نہ جانے مجھے کیا کیا سیاسی لالچ دیے گئے۔ میں چور دروازے سے اقتدار کی دہلیز پر قدم نہیں رکھوں گا۔ عوام کے ووٹوں کی قوت سے پارلیمان میں جا کر فیصلہ کروں کہ مجھے کیا کرنا ہے۔‘
www.bbc.com