2 judges tou koi remarks hi nahi detey tou hamain kaisay maloom ke woh nahi karaingay DQ?
Justice Faisal Arab tu bhtt khamosh rehtay hain.. I think Justice Gulzar se bhi ziada ..lekin i dont think ke unhon ne kabhi IK ke against koi remark dia ho...
Justice Umar Ata Bandial..phir bhi kuch boltay hain... ... Akram Sheikh ko bhi aksar achi khaasi sunaa detey hain..kabhi IK se bhi sawaalat poochtay hain.lekin Lekin mujhe nahi lagta hai ke woh bhi disqualify karein ge... Aaj Umar Ata Bandial ne ye tu kaha hai ke IK par public money ke misuse ka koi koi muqaddma nahi hai...obv in ref to panama case...
------------------
سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
عمران خان کی نااہلی کیلئے دائر حنیف عباسی کی درخواست پر نعیم بخاری نے عدالت سے ایک دن کی مہلت لی تھی کہ جمائما سے رابطہ کرکے بنک ٹرانزیکشن کی تصدیق کروں گا۔
آج اٹھائیس ستمبر کو ساڑھے گیارہ بجے جب سماعت کا آغاز ہوا تو وکیل نعیم بخاری نے چیف جسٹس ثاقب نثار کو مخاطب کرکے کہاکہ مائی لارڈ نے دو سوالات کیے تھے، ایک وہ رقم جو بارکلے بنک میں تھی یعنی 75 ہزارپاﺅنڈ دوہزار تین میں الیکشن کمیشن کے سامنے بطور اثاثہ ظاہر کیوں نہ کی گئی، اور اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ دوسرا معاملہ جس کے بارے میں پوچھا گیا تھا کہ ایک اکاﺅنٹ سے دوسرے اکاﺅنٹ میں رقم منتقلی کی تصدیق کی جائے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ میرا پہلا جواب ہے کہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن نہیں بلکہ ایف بی آر دیکھ سکتا ہے، تیس جون دوہزار تین کے ٹیکس گوشوارے میں سے یہ بات سامنے لائی جاسکتی تھی، صرف ایف بی آر مجاز ہے کہ ہرسال جون کی تیس تاریخ کو آمدن اور اخراجات کا پوچھے۔
چیف جسٹس نے پوچھاکہ کیا یہ 75 ہزار پاﺅنڈ عمران خان کا اثاثہ تھے؟۔ وکیل بولے کہ نہیں تھے، اب اس سوال کا جواب ایک ترتیب سے تفصیل میں سمجھاﺅں گا۔اس کے بعد نعیم بخاری نے حنیف عباسی کی درخواست پڑھنا شروع کی اور کہاکہ الزام ہے کہ عمران خان نے جمائما کے ساتھ رقم کا تحائف کے طور پر تبادلہ ٹیکس سے بچنے کیلئے کیا گیا، عمران خان نے اپنے جواب میں جائیداد خریداری کیلئے اس طرح کا انتظام کرنے کی تردید کی تھی۔ وکیل نے کہاکہ بنی گالہ اراضی خریداری کیلئے رقم کے تحائف کا بندوبست کرکے ٹیکس سے بچنے کا الزام غلط ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عمران خان کا تحریری جواب تھا کہ زمین خریداری کیلئے65 لاکھ کی پہلی قسط خود ادا کی، یہ کبھی نہیں کہا کہ وہ رقم بطور تحفہ تھی۔ گزشتہ روز اچانک موقف میں تبدیلی آئی۔ وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ میاں بیوی کے درمیان رقم کا تبادلہ بنک قرض سے مختلف معاملہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ وہ چینل بتادیں جس کے ذریعے رقم ایک سے دوسرے اکاﺅنٹ میں گئی۔ جسٹس عمر عطا نے کہاکہ ہم صرف ٹرانزیکشن دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیسے ہوئی، یہ ٹیکس یا اکاﺅنٹنگ کا کیس نہیں، نہ ہی عمران خان پر عوامی خزانے کے استعمال کا مقدمہ ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہم صرف بنک اکاﺅنٹ کی اسٹیٹمنٹ کا پوچھ رہے ہیں، آپ نے جو خطوط دکھائے یہ نیازی کمپنی کے ہیں، بے نامی ٹرانزیکشن یا جائیداد کے غیر قانونی ہونا مسئلہ نہیں۔ہم کسی کی نیت کو نہیں جانچ سکتے صرف عمل سے اس کا پتہ چلتاہے کہ نیت کیا تھی، جب درخواست گزار کا الزام ہے کہ بے نامی جائیداد ٹیکس سے بچنے کیلئے خریدی گئی تو ہم اس کیلئے وکیل سے قانونی معاونت بھی حاصل کریں گے مگر عمران خان کو بھی جمائما سے ملنے والی رقم کو ثابت کرنا ہوگا، اب تک تین رقوم کی منتقلی ثابت کی جاچکی ہے، باقی کیلئے بھی عمران خان کو تمام بنک ٹرانزیکشن کی تصدیق دستاویزات سے کرنا ہوگی۔ چیف جسٹس نے پورے مقدمے کے اہم نکات ترتیب سے پڑھے اور سمجھاتے رہے تو عمران خان کے وکیل نعیم بخاری ہر بات پر ماشا ءاللہ، ماشاءاللہ کہتے رہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ سوال صرف یہ ہے کہ رقم نیازی کمپنی کے اکاﺅنٹ سے جمائما کے آئرش اکاﺅنٹ میں کیسے گئی، اس رقم ٹرانسفر کی دستاویز دینی ہے۔ وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ دوہزار تین میں جو رقم الیکشن کمیشن کے سامنے ظاہر نہیں کی گئی وہ عمران خان کی تھی ہی نہیں بلکہ وہ نیازی کمپنی کا اثاثہ تھی، جمائما نے رقم اپنے اکاﺅنٹ میں آنے کی تصدیق کی ہے وہ بنک سے اسٹیٹمنٹ حاصل کرکے فراہم کریں گی۔ اس حوالے سے اپریل دوہزارتین میں عمران خان کے لکھے گئے خطوط عدالت میں پیش کردیے ہیں۔ وکیل اکرم شیخ نے اپنی نشست سے اٹھ کر اعتراض کرتے ہوئے کہاکہ دوہزار تین کے خطوط آج پیش کیے جارہے ہیں، عدالت دیکھے کہ دلائل مکمل کرنے کے بعد پرانی دستاویزات سامنے لائی جارہی ہیں، ان کے اپنی دستاویزات اس کیس میں ان کے موقف سے متضاد ہیں۔وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ مجھے اس کیس میں بعد میں وکیل کیا گیا تھا، اگر پہلے دن یہ دستاویز ملتی تو اسی وقت پیش کردیتا۔ عدالت کی اجازت سے جمائما سے رابطہ کرکے تفصیل مانگی، جمائما نے اپنے بنک سے تصدیق کر لی ہے، اس کی ای میلز بھی عدالت میں پیش کر رہا ہوں، جمائما کو جیسی ہی بنک اسٹیٹمنٹ ملے گی وہ بھی فراہم کردوں گا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے جمائما کی تصدیقی ای میل کا صفحہ ملاحظہ کرنے کے بعد کہا کہ ہم یہ نہیں رکھیں گے، اپنے پاس رکھیں، ہمیں صرف بنک اسٹیٹمنٹ فراہم کردیں۔ (پچھلی نشست پر بیٹھے رپورٹر نے سرگوشی کی کہ کہیں چیف جسٹس جمائما کی ای میل دیکھنے کے بعد اس کے نمبر پر مس کال دینے سے تو نہیں ڈر رہے)۔
چیف جسٹس نے کہاکہ یہ بالکل سیدھا سا کیس تھا، طوالت اختیار کرکے یہاں تک پہنچا ہے، یہ دستاویزات پہلے دن ہی آ جانی چاہیے تھیں۔
نعیم بخاری نے کہاکہ اب دوسرے ایشو کی طرف آتا ہوں، نیازی کمپنی کے اکاﺅنٹ میں ننانوے ہزار پاﺅنڈ کی رقم عمران خان کا اثاثہ نہیں تھی، لندن فلیٹ کے کرائے دار نے مقدمہ عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ نیازی کمپنی کے خلاف کیا تھا۔ وکیل نے کہاکہ بنی گالہ گھر کیلئے آرکیٹیکٹ نے بہت مہنگا ڈیزائن تیار کیا تھا صرف اس وقت اناسی ہزار پاﺅنڈ نقد کی صورت میں منتقل کیے گئے تھے۔ اس کے بعد نعیم بخاری نے لندن فلیٹ کرایہ دار کے خلاف قانونی کارروائی کی تفصیل بتائی تو جسٹس عمرعطا نے کہاکہ لندن کی عدالت نے نیازی کمپنی کے خلاف فیصلہ دیا تھا کرایہ دار کے خلاف نہیں۔ وکیل نے کہاکہ ننانوے ہزار پاﺅنڈ کی رقم اکاﺅنٹ میں قانونی معاملات پر لگانے کیلئے ہی رکھی گئی تھی، کرایہ دار کے خلاف دوسال کے کرائے کا مقدمہ بھی تھا۔ چیف جسٹس نے پوچھاکہ یہ رقم اگر قانونی معاملات سے بچ جاتی تو کیا عمران خان کا اثاثہ ہوتی؟۔ وکیل نے کہاکہ بالکل ایسا ہوتا، مگر عمران نے پہلے ہی نیازی کمپنی کے ڈائریکٹرز سے معاہدہ کیا تھاکہ یہ رقم ان پر لگائی جائے گی۔جسٹس عمر عطا نے کہاکہ اب ہمیں دو چیزیں فراہم کی جائیں، ایک جمائما کے اکاﺅنٹ میں رقم ٹرانسفر ہونے کی اسٹیٹمنٹ اور دوسری وہ دستاویز جس سے معلوم ہوکہ لندن میں فلیٹ کا کرایہ نہ ملنے پر کرائے دار کے خلاف فیصلہ آپ کے حق میں آیا تھا۔
اس کے بعد نعیم بخاری نے کہاکہ میں اپنے دلائل مکمل کر رہا ہوں، جو کچھ میں نے کہا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ درخواست گزار نے اسلام آباد کے کانسٹی ٹیوشن ون بلدنگ میں فلیٹ چھپانے کا الزام لگایا، اس پر جواب یہ ہے کہ دوہزار تیرہ میں یہ فلیٹ الاٹ نہیں ہوا تھا اس لیے ظاہر نہیں کیا، جب اثاثہ بنا تو اگلے سال ٹیکس گوشوارے میں ظاہر کیا۔ دوسرا الزام یہ ہے کہ بنی گالہ جائیداد خریداری کیلئے رقم تحائف کا انتظام کرکے ٹیکس سے بچاگیا، جواب یہ ہے کہ عمران نے 65 لاکھ ادا کیے اور یہ زمین جمائما کیلئے ہی تھی،لندن فلیٹ فروخت نہ ہوا تو ادائیگی کیلئے جمائما سے باقی رقم ادھارلی گئی،اور پھر یہ ادھا واپس کیا گیا، یہ اراضی اگر جمائما واپس نہ بھی کرتی تو اسی کی تھی۔
تیسرا ایشو نیاز ی کمپنی کا اٹھایا گیا، کہا گیا کہ نیازی کمپنی ٹیکس استثنا اسکیم سے فائدہ اٹھانے کی مجاز نہ تھی، میرا جواب یہ ہے کہ نیازی کمپنی نے اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ عمران خان نے بطور بینیفشل اونر استثنا اسکیم سے فائدہ لیا۔چوتھا ایشو درخواست میں نہیں ہے بلکہ سماعت کے دوران سامنے لایا گیا جس میں نیازی کمپنی اور لندن فلیٹ خریدنے کیلئے رقم کا معاملہ ہے، اس کا میں نے یہ جواب دیاکہ عمران جوانی سے ہی کرکٹر تھے اور ساری رقم خود کمائی۔ اس کیس کا کسی دوسرے مقدمے سے کوئی تعلق یامماثلت نہیں ہے،عمران پر منی لانڈرنگ یا قومی دولت سے متعلق بھی کوئی الزام نہیں، بطور عوامی نمائندہ بھی عمران خان کسی الزام کیلئے یہاں جوابدہ نہیں بنائے گئے، ہاں میرے موکل کی طلاق ہوئی ہے۔
نعیم بخار ی کے دلائل مکمل کرنے کے بعد درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ نے کہاکہ عمران خان کے بارکلے بنک لندن کو رقم ٹرانسفر کرنے کیلئے لکھے گئے دو خطوط پر دستخطوں میں فرق ہے، ایک زمین پر اوردسرا مریخ پر لکھا ہے، یہ جعل سازی سے تیار کیے گئے دستاویزات ہیں، عدالت اس کو بھی دیکھے۔ نعیم بخاری نے کہاکہ عدالت سماعت کچھ دنوں کیلئے ملتوی کرے، محرم ہے مجلس پر جانا ہے۔ وکیل اکرم شیخ نے کا کہا کہ جہاں آپ نے مجلس پڑھنی ہے میں بھی حاضر ہو جاتا ہوں۔ نعیم بخاری نے کہاکہ پڑھتا نہیں، سنتا ہوں۔ چیف جسٹس سماعت ملتوی کرنے لگے تو اکرم شیخ ایک بار پھر بولے کہ نعیم بخاری صاحب سے پوچھ لیں کہ انہوں نے مجلس کہاں پڑھنی ہے، میں نے سننی ہے۔
مقدمے کی سماعت تین اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔