shah1398
SENIOR MEMBER
- Joined
- Apr 30, 2015
- Messages
- 3,855
- Reaction score
- 6
- Country
- Location
Some facts that none of us did know.
Posted as received. So its not necessary that most of the members do agree to what is said below.
PS: Efforts to translate it into English will be welcomed as we can not really summarize it, owing to fact that each and every sentence matters.
ڈیورنڈ لائن ، پاک افغان تعلقات اور پراکسی جنگ ۔۔۔
اس سارے معاملے کی جڑیں کم از کم ڈیڑھ سو سال پرانی تاریخ میں دبی ہوئی ہیں۔ اس وقت یہاں برطانوی راج تھا۔ برطانیہ کو خطرہ تھا کہ روس بتریج اسلامی ریاستوں کو ہڑپ کرتا ہوا نیچے افغانستان کی طرف آرہا ہے اور کسی بھی وقت تاج برطانیہ کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
Posted as received. So its not necessary that most of the members do agree to what is said below.
PS: Efforts to translate it into English will be welcomed as we can not really summarize it, owing to fact that each and every sentence matters.
ڈیورنڈ لائن ، پاک افغان تعلقات اور پراکسی جنگ ۔۔۔
اس سارے معاملے کی جڑیں کم از کم ڈیڑھ سو سال پرانی تاریخ میں دبی ہوئی ہیں۔ اس وقت یہاں برطانوی راج تھا۔ برطانیہ کو خطرہ تھا کہ روس بتریج اسلامی ریاستوں کو ہڑپ کرتا ہوا نیچے افغانستان کی طرف آرہا ہے اور کسی بھی وقت تاج برطانیہ کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
س خطرے سے نمٹنے کے لیے برطانیہ نے افغانستان پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا اور 1839 میں افغانستان پر حملہ کر دیا۔ یہ پہلی اینگول افغان جنگ تھی جس میں برطانیہ کو شکست ہوئی اور اسکی پوری فوج میں سے صرف ایک شخص زندہ واپس آیا۔ چند دہائیوں کے بعد تاج برطانیہ نے انہی خطرات کے پیش نظر دوبارہ افغانستان پر چڑھائی کرنے کا منصوبہ بنایا تو اس وقت کی افغان حکومت گھبرا گئی اور 1893ء میں افغانستان کے شاہ عبد الرحمن خان نے تاج برطانیہ کے نمائندے سر ہنری مورٹیمر ڈیورنڈ کے ساتھ معاہدہ کر لیا اور موجودہ ڈیورنڈ لائن اس طرف کے علاقوں سے دستبردار ہوگیا۔
ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ یہ معاہدہ 100 سال کے لیے ہوا تھا چنانچہ اب یہ منسوخ ہو چکا ہے۔ حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔
درحقیقت ابتداء میں یہ صرف شاہ کی زندگی تک محدود تھا یعنی 100 سال سے بھی کم۔ لیکن جیسے ہی شاہ کی موت ہوئی تو وائسرائے لارڈ کرزن نے اس کے بیٹے اور افغانستان کے نئے بادشاہ حبیب اللہ خان کو ڈیورنڈ لائن پر بات چیت کرنے کے لیےانڈیا آنے کی دعوت دی۔ حبیب اللہ انڈیا آنے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ اپنے باپ کے کیے گئے معاہدے کو جانتا ہے اور اسکی پاسداری کرے گا۔ لیکن وائسرائے جانتا تھا کہ معاہدہ ایکسپائر ہو چکا ہے اور نئے معاہدے کی ضرورت ہے اس لیے وہ بضد رہا۔
حیبیب اللہ کے انکار پر وائسرائے لارڈ کرزن نے افغانستان کی 1.8 ملین روپے کی سالانہ امداد روک دی اور افغانستان اور انڈیا کے مابین تجارتی راہداری بند کروا دی۔ تب حبیب اللہ خان نے خواہش ظاہر کی کہ برطانوی وزیر سر لوئس ڈبیوڈین افغانستان کا دورہ کریں۔
1904 میں سر لوئس افغانستان آئے اور نئے معاہدے پر بات چیت کا اغاز ہوا۔ اس طویل بات چیت کے نتیجے میں بالآخر 21 مارچ 1905 کو مشہور معاہدہ ہوا جس کو ڈین حبیب اللہ ایگریمنٹ ( Dane-Habibullah agreement) کہا جاتا ہے۔ تاج برطانیہ نے پابندیاں ہٹا لیں۔ اس میں پہلے معاہدے کی طرح وقت کی کوئی قید نہیں تھی اور افغانستان نے پہلی بار ڈیورنڈ لائن کو ایک مستقل سرحد کے طور پر تسلیم کرلیا۔
8 اگست 1919 کو افغانستان کے وزیر داخلہ علی احمد خان نے راولپنڈی کا دورہ کیا اور پرانے معاہدے کو دوبارہ تازہ کیا جس کی شق نمبر 5 کے مطابق اب ڈیورنڈ لائن افغانستان اور برصغیر کے درمیان ایک مستقل سرحد تھی۔ لیکن اب کی بار معاہدہ صرف ایک بادشاہ نے نہیں کیا تھا بلکہ افغان حکومت نے معاہدے کی توثیق کی تھی۔
اسی معاہدے کی شق نمبر 4 کے تحت سر آر سی ڈوبز نے افغانستان کا دورہ کیا تاکہ افغانستان کے ساتھ دوستانہ سیاسی تعلقات کا آغاز کیا جا سکے۔ یہاں 22 نومبر 1921 کو ایک اور معاہدہ لکھا گیا جس کی شق نمبر 2 کے تحت تیسری بار افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو ایک مستقل بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کر لیا۔
6جوالئی 1930 کو افغانستان کے بادشاہ نادر خان نے انڈیا ایک وفد بھیجا اور ایک بار پھر تمام پرانے معاہدوں کی پاسداری کرنے کا یقین دلایا-
یوں عبدالرحمن خان کے بعد حبیب اللہ خان، امان اللہ خان نے دو بار اور نادر خان نے بھی نہ صرف پرانے معاہدے کی توثیق کی بلکہ اسکو وقت کی قید سے آزاد کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے ڈیورنڈ لائن کو ایک مستقل سرحد کے طور پر تسلیم کرلیا۔
یہ ڈیورنڈ لائن کی وہ تاریخ ہے جس سے حیرت انگیز طور پر عام افغانی کو لاعلم رکھا گیا اور وہ آج تک عبد الرحمن خان کے کسی 100 سالہ ایگریمنٹ کو یاد کرتے ہیں۔
1947سے کچھ عرصہ قبل جیسے ہی قیام پاکستان کی باتیں ہونے لگیں افغانستان میں کچھ لوگوں نے دوبارہ ڈیورنڈ لائن پر سوالات اٹھائے اور یہ کہنا شروع کیا کہ معاہدہ تو تاج برطانیہ کے ساتھ تھا حکومت تبدیل ہوئی تو معاہدہ منسوخ ہوجائیگا۔
اس کا نتیجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف واحد پڑنے والا ووٹ افغانستان کا تھا۔ تاہم افغانستان نہ بین لاقوامی قوانین کے تحت یہ علاقے واپس لینے کا مجاز تھا نہ ہی اتنی طاقت رکھتا تھا کہ پاکستان سے زبردستی یہ علاقے لے سکے۔ تب اس نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ1947 سے افغانستان پاکستان میں پختونستان کی تحریک اور بلوچستان میں مری قبائل اور آزاد بلوچستان کی تحریکوں کو سپورٹ کرتا رہا۔ (مجھے کامل یقین ہے کہ پختونستان تحریک کے روح رواں اسفند یار علی اور محمود اچکزئی سے اگر آج بھی ڈیورنڈ لائن کے بارے میں یہ سوال کیا جائے کہ " کیا آپ اسکو تسلیم کرتے ہیں؟" تو گمان غالب ہے کہ انکا جواب نہیں میں ہوگا یا گول کر جائنگے)-
سردار داوؤد کے دور میں پاکستان میں افغانستان کی مداخلت اتنی بڑھ گئی کہ پاکستان کو پہلی بار مری قبائلز کے خلاف بلوچستان میں آپریشن کرنا پڑا۔ بلوچستان میں یہ آپریشن ذولفقارعلی بھٹو کے حکم پر اور نواب اکبر بگٹی کے زیر نگرانی ہوا۔
افغانستان سے بارہا یہ مداخلت بند کرنے کی اپیلیں کی گئیں لیکن ان کی طرف سے یہ سلسلہ جاری رہا۔ بہت سے سکالرز کے نزدیک 1950ء سے 80ء تک تین دہائیاں افغانستان نے پاکستان میں شورش اور بغاوتوں کی اتنی فنڈنگ کی کہ بعد وہ خود روس سے امداد لینے پر مجبور ہوگیا تھا جس کا نتیجہ 79ء میں افغانستان پر روسی حملے کی شکل میں نظر آیا۔
افغانستان کی ہٹ دھرمی پر ذولفقار علی بھٹو کے دور میں پہلی بار بالآخر پاکستان نے افغانستان کو جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ افغانستان میں روسی اثرو رسوخ کی وجہ سے الحاد تیزی سے پھیل رہا تھا جس کے خلاف جگہ جگہ لوگ مزاحمت کر رہے تھے۔ ان میں کچھ مشہور سٹوڈنٹ لیڈرز بھی شامل تھے۔ جن میں گل بدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود قابل ذکر ہیں۔ بھٹو کے حکم پر کوئی درجن کے قریب ان سٹوڈنٹ لیڈر کو پاکستان لایا گیا۔ چراٹ میں ٹریننگ دلوائی گئی اور واپس افغانستان بھیجا گیا۔
پاکستان نے جب افغانستان کو جواب دینا شروع کیا تو افغانستان کی چیخیں نکل گئیں اور سردار داوؤد نے پاکستان کا دورہ کر کے اس وقت کی حکومت کو یقین دلایا کہ افغانستان اب پاکستان میں گڑ بڑ نہیں کرے گا۔ تاہم سردار داؤود پر روس کے تیار کردہ کچھ ملحد کٹھ پتلیوں ببرک کارمل اور ترکئی وغیرہ نے حملہ کر کے قتل کر دیا اس حملے میں باقاعدہ روسی جہازوں نے حصہ لیا تھا۔ یوں کابل پر سیکولر ملحد روسی کٹھ پتلیوں نے قبضہ کر لیا۔ جس کے خلاف افغانستان بھر میں مزاحمت ہوئی۔ تب ان کٹھ پتلیوں نے روس کو افغانستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ تو روس اپنی 5 لاکھ فوج لے کر افغانستان پر چڑھ دوڑا۔
ظاہر ہے روس نے یہ حملہ اپنی پوری طاقت سے کیا تھا اور اتنا بڑا رسک محض ان کٹھ پتلیوں کی مدد کے لیے نہیں تھا۔ وہ پاکستان کی طرف آنا چاہتا تھا گرم پانیوں کے لیے۔ تب جنرل ضیاء الحق اقتدار میں تھے جس نے جذبہ جہاد سے سرشار ہوکر افغانستان کو روس کے لیے قبرستان بنا دیا۔
اس سے آگے کی تاریخ سے آپ سب واقف ہیں۔ وہ لکھیں گے تو مضمون بہت لمبا ہو جائیگا۔ لیکن اوپر جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاک افغان تعلقات میں ڈیورنڈ لائن کا کیا کردار رہا ہے اور پراکسی جنگیں کس نے اور کیوں لڑیں!
ڈیورنڈ لائن سے متعلق سوال کو افغان حکومت ہمیشہ یہ کہہ کر گول کر جاتی ہے کہ اسکا فیصلہ افغانستان کی عوام کرے گی۔ بھلا ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کیے بغیر افغانستان پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات کیسے درست کر سکتا ہے ؟
مشرف نے اپنے دور میں ڈیورنڈ لائن میں بارودی سرنگیں بچھانے کی کوشش کی تو افغانستان اس پرچیخ پڑا تھا اور تو اور پاکستان میں پشتونستان کے علمبرداوں اسفند یار ولی نے بھی اس پر شور مچایا تھا۔
مشرف دور میں جب افغان سفیر نے پہلی بار پاک فوج پر افغان طالبان کو سپورٹ کرنے کا الزام لگایا تو اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ خورشید قصوری نے سوال کیا تھا کہ " آپ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کو افغانستان ڈی سٹیبلائز کرنے میں کیا فائدہ ہے ؟" تو وہ کوئی جواب نہیں دے سکا تھا۔
کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ معاہدہ زبردستی کروایا گیا جبکہ یہ صحیح نہیں۔ پہلا معاہدہ ایکسپائر ہونے کے بعد باقی چاروں معاہدات افغانستان نے مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے کیےتھے۔ ویسے بھی دنیا بھر میں ہونے والے ایسے معاہدوں میں اکثر کسی نہ کسی فریق پر کوئی نہ کوئی یبرونی دباؤ ہوتا ہی ہے لیکن اس دباؤ سے معاہدوں کی حیثیت پر فرق نہیں پڑتا اور انکی پاسداری کی جاتی ہے۔ حتی کہ صلح حدیبیہ میں بھی کمزوری کی حالت کفار کی کڑی شرائط تسلیم کی گئیں لیکن بعد میں طاقت حاصل کر لینے کے باوجود مسلمانوں نے اس معاہدے کی پاسداری کی۔
امریکہ اور برطانیہ سمیت تمام اسلامی ممالک نے ڈیورنڈ لائن کو ایک انٹرنیشنل بارڈر کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے۔ بین لاقوامی قوانین بھی افغانستان کے ڈیورنڈ لائن سے متعلق موقف کو تسلیم نہین کرتے۔
ویانا کنونشن جس پر افغانستان نے دستخط کر رکھے ہیں اس کی شق نمبر 11 کے مطابق ممالک کی تقسیم کے بعد بھی بین الاقوامی سرحدون کے لیے اس قسم کے معاہدوں کی پاسداری کی جائیگی۔ اسی کنونشن کے مطابق اس قسم کے پرانے مسئلوں کو بھی اسی کنونشن کے مطابق حل کیا جائیگا۔ تب افغانستان یہ دلیل بھی نہیں دے سکتا کہ ویانا کنونشن والا معاہدہ بعد میں ہوا ہے۔
ایک دلچسپ بات آپکو اور بتاتے ہیں۔ خاص کر انکو جو پشتونستان کے نعرے لگاتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت پشتونوں کی آبادی کم از کم 5 کروڑ سے اوپر ہے۔ جبکہ افغانستان میں انکی کل آبادی زیادہ سے زیادہ 2 کروڑ ہے۔ بلکہ افغانستان کی کل آبادی ہی 3 کروڑ ہے۔
اگر آج پاکستان کے پشتوں دعوی کر دیں کہ درحقیقت ہم سے افغانستان الگ ہوا تھا کونکہ ہم تعداد میں زیادہ ہیں اور افغانستان کو واپس پاکستان کا حصہ بننا چاہئے تو جمہوری اصول کے تحت پشتونستان کا نعرہ لگانے والے اس کی مخالفت نہیں کر سکتے!
لیکن پشتون تو چھوڑیں اب تو وہ افغانی بھی افغانستان میں واپس جانے کے لیے تیار نہیں جن کو روسی حملے کے بعد پاکستان نے پناہ دی تھی
ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ یہ معاہدہ 100 سال کے لیے ہوا تھا چنانچہ اب یہ منسوخ ہو چکا ہے۔ حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔
درحقیقت ابتداء میں یہ صرف شاہ کی زندگی تک محدود تھا یعنی 100 سال سے بھی کم۔ لیکن جیسے ہی شاہ کی موت ہوئی تو وائسرائے لارڈ کرزن نے اس کے بیٹے اور افغانستان کے نئے بادشاہ حبیب اللہ خان کو ڈیورنڈ لائن پر بات چیت کرنے کے لیےانڈیا آنے کی دعوت دی۔ حبیب اللہ انڈیا آنے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ اپنے باپ کے کیے گئے معاہدے کو جانتا ہے اور اسکی پاسداری کرے گا۔ لیکن وائسرائے جانتا تھا کہ معاہدہ ایکسپائر ہو چکا ہے اور نئے معاہدے کی ضرورت ہے اس لیے وہ بضد رہا۔
حیبیب اللہ کے انکار پر وائسرائے لارڈ کرزن نے افغانستان کی 1.8 ملین روپے کی سالانہ امداد روک دی اور افغانستان اور انڈیا کے مابین تجارتی راہداری بند کروا دی۔ تب حبیب اللہ خان نے خواہش ظاہر کی کہ برطانوی وزیر سر لوئس ڈبیوڈین افغانستان کا دورہ کریں۔
1904 میں سر لوئس افغانستان آئے اور نئے معاہدے پر بات چیت کا اغاز ہوا۔ اس طویل بات چیت کے نتیجے میں بالآخر 21 مارچ 1905 کو مشہور معاہدہ ہوا جس کو ڈین حبیب اللہ ایگریمنٹ ( Dane-Habibullah agreement) کہا جاتا ہے۔ تاج برطانیہ نے پابندیاں ہٹا لیں۔ اس میں پہلے معاہدے کی طرح وقت کی کوئی قید نہیں تھی اور افغانستان نے پہلی بار ڈیورنڈ لائن کو ایک مستقل سرحد کے طور پر تسلیم کرلیا۔
8 اگست 1919 کو افغانستان کے وزیر داخلہ علی احمد خان نے راولپنڈی کا دورہ کیا اور پرانے معاہدے کو دوبارہ تازہ کیا جس کی شق نمبر 5 کے مطابق اب ڈیورنڈ لائن افغانستان اور برصغیر کے درمیان ایک مستقل سرحد تھی۔ لیکن اب کی بار معاہدہ صرف ایک بادشاہ نے نہیں کیا تھا بلکہ افغان حکومت نے معاہدے کی توثیق کی تھی۔
اسی معاہدے کی شق نمبر 4 کے تحت سر آر سی ڈوبز نے افغانستان کا دورہ کیا تاکہ افغانستان کے ساتھ دوستانہ سیاسی تعلقات کا آغاز کیا جا سکے۔ یہاں 22 نومبر 1921 کو ایک اور معاہدہ لکھا گیا جس کی شق نمبر 2 کے تحت تیسری بار افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو ایک مستقل بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کر لیا۔
6جوالئی 1930 کو افغانستان کے بادشاہ نادر خان نے انڈیا ایک وفد بھیجا اور ایک بار پھر تمام پرانے معاہدوں کی پاسداری کرنے کا یقین دلایا-
یوں عبدالرحمن خان کے بعد حبیب اللہ خان، امان اللہ خان نے دو بار اور نادر خان نے بھی نہ صرف پرانے معاہدے کی توثیق کی بلکہ اسکو وقت کی قید سے آزاد کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے ڈیورنڈ لائن کو ایک مستقل سرحد کے طور پر تسلیم کرلیا۔
یہ ڈیورنڈ لائن کی وہ تاریخ ہے جس سے حیرت انگیز طور پر عام افغانی کو لاعلم رکھا گیا اور وہ آج تک عبد الرحمن خان کے کسی 100 سالہ ایگریمنٹ کو یاد کرتے ہیں۔
1947سے کچھ عرصہ قبل جیسے ہی قیام پاکستان کی باتیں ہونے لگیں افغانستان میں کچھ لوگوں نے دوبارہ ڈیورنڈ لائن پر سوالات اٹھائے اور یہ کہنا شروع کیا کہ معاہدہ تو تاج برطانیہ کے ساتھ تھا حکومت تبدیل ہوئی تو معاہدہ منسوخ ہوجائیگا۔
اس کا نتیجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف واحد پڑنے والا ووٹ افغانستان کا تھا۔ تاہم افغانستان نہ بین لاقوامی قوانین کے تحت یہ علاقے واپس لینے کا مجاز تھا نہ ہی اتنی طاقت رکھتا تھا کہ پاکستان سے زبردستی یہ علاقے لے سکے۔ تب اس نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ1947 سے افغانستان پاکستان میں پختونستان کی تحریک اور بلوچستان میں مری قبائل اور آزاد بلوچستان کی تحریکوں کو سپورٹ کرتا رہا۔ (مجھے کامل یقین ہے کہ پختونستان تحریک کے روح رواں اسفند یار علی اور محمود اچکزئی سے اگر آج بھی ڈیورنڈ لائن کے بارے میں یہ سوال کیا جائے کہ " کیا آپ اسکو تسلیم کرتے ہیں؟" تو گمان غالب ہے کہ انکا جواب نہیں میں ہوگا یا گول کر جائنگے)-
سردار داوؤد کے دور میں پاکستان میں افغانستان کی مداخلت اتنی بڑھ گئی کہ پاکستان کو پہلی بار مری قبائلز کے خلاف بلوچستان میں آپریشن کرنا پڑا۔ بلوچستان میں یہ آپریشن ذولفقارعلی بھٹو کے حکم پر اور نواب اکبر بگٹی کے زیر نگرانی ہوا۔
افغانستان سے بارہا یہ مداخلت بند کرنے کی اپیلیں کی گئیں لیکن ان کی طرف سے یہ سلسلہ جاری رہا۔ بہت سے سکالرز کے نزدیک 1950ء سے 80ء تک تین دہائیاں افغانستان نے پاکستان میں شورش اور بغاوتوں کی اتنی فنڈنگ کی کہ بعد وہ خود روس سے امداد لینے پر مجبور ہوگیا تھا جس کا نتیجہ 79ء میں افغانستان پر روسی حملے کی شکل میں نظر آیا۔
افغانستان کی ہٹ دھرمی پر ذولفقار علی بھٹو کے دور میں پہلی بار بالآخر پاکستان نے افغانستان کو جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ افغانستان میں روسی اثرو رسوخ کی وجہ سے الحاد تیزی سے پھیل رہا تھا جس کے خلاف جگہ جگہ لوگ مزاحمت کر رہے تھے۔ ان میں کچھ مشہور سٹوڈنٹ لیڈرز بھی شامل تھے۔ جن میں گل بدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود قابل ذکر ہیں۔ بھٹو کے حکم پر کوئی درجن کے قریب ان سٹوڈنٹ لیڈر کو پاکستان لایا گیا۔ چراٹ میں ٹریننگ دلوائی گئی اور واپس افغانستان بھیجا گیا۔
پاکستان نے جب افغانستان کو جواب دینا شروع کیا تو افغانستان کی چیخیں نکل گئیں اور سردار داوؤد نے پاکستان کا دورہ کر کے اس وقت کی حکومت کو یقین دلایا کہ افغانستان اب پاکستان میں گڑ بڑ نہیں کرے گا۔ تاہم سردار داؤود پر روس کے تیار کردہ کچھ ملحد کٹھ پتلیوں ببرک کارمل اور ترکئی وغیرہ نے حملہ کر کے قتل کر دیا اس حملے میں باقاعدہ روسی جہازوں نے حصہ لیا تھا۔ یوں کابل پر سیکولر ملحد روسی کٹھ پتلیوں نے قبضہ کر لیا۔ جس کے خلاف افغانستان بھر میں مزاحمت ہوئی۔ تب ان کٹھ پتلیوں نے روس کو افغانستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ تو روس اپنی 5 لاکھ فوج لے کر افغانستان پر چڑھ دوڑا۔
ظاہر ہے روس نے یہ حملہ اپنی پوری طاقت سے کیا تھا اور اتنا بڑا رسک محض ان کٹھ پتلیوں کی مدد کے لیے نہیں تھا۔ وہ پاکستان کی طرف آنا چاہتا تھا گرم پانیوں کے لیے۔ تب جنرل ضیاء الحق اقتدار میں تھے جس نے جذبہ جہاد سے سرشار ہوکر افغانستان کو روس کے لیے قبرستان بنا دیا۔
اس سے آگے کی تاریخ سے آپ سب واقف ہیں۔ وہ لکھیں گے تو مضمون بہت لمبا ہو جائیگا۔ لیکن اوپر جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاک افغان تعلقات میں ڈیورنڈ لائن کا کیا کردار رہا ہے اور پراکسی جنگیں کس نے اور کیوں لڑیں!
ڈیورنڈ لائن سے متعلق سوال کو افغان حکومت ہمیشہ یہ کہہ کر گول کر جاتی ہے کہ اسکا فیصلہ افغانستان کی عوام کرے گی۔ بھلا ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کیے بغیر افغانستان پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات کیسے درست کر سکتا ہے ؟
مشرف نے اپنے دور میں ڈیورنڈ لائن میں بارودی سرنگیں بچھانے کی کوشش کی تو افغانستان اس پرچیخ پڑا تھا اور تو اور پاکستان میں پشتونستان کے علمبرداوں اسفند یار ولی نے بھی اس پر شور مچایا تھا۔
مشرف دور میں جب افغان سفیر نے پہلی بار پاک فوج پر افغان طالبان کو سپورٹ کرنے کا الزام لگایا تو اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ خورشید قصوری نے سوال کیا تھا کہ " آپ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کو افغانستان ڈی سٹیبلائز کرنے میں کیا فائدہ ہے ؟" تو وہ کوئی جواب نہیں دے سکا تھا۔
کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ معاہدہ زبردستی کروایا گیا جبکہ یہ صحیح نہیں۔ پہلا معاہدہ ایکسپائر ہونے کے بعد باقی چاروں معاہدات افغانستان نے مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے کیےتھے۔ ویسے بھی دنیا بھر میں ہونے والے ایسے معاہدوں میں اکثر کسی نہ کسی فریق پر کوئی نہ کوئی یبرونی دباؤ ہوتا ہی ہے لیکن اس دباؤ سے معاہدوں کی حیثیت پر فرق نہیں پڑتا اور انکی پاسداری کی جاتی ہے۔ حتی کہ صلح حدیبیہ میں بھی کمزوری کی حالت کفار کی کڑی شرائط تسلیم کی گئیں لیکن بعد میں طاقت حاصل کر لینے کے باوجود مسلمانوں نے اس معاہدے کی پاسداری کی۔
امریکہ اور برطانیہ سمیت تمام اسلامی ممالک نے ڈیورنڈ لائن کو ایک انٹرنیشنل بارڈر کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے۔ بین لاقوامی قوانین بھی افغانستان کے ڈیورنڈ لائن سے متعلق موقف کو تسلیم نہین کرتے۔
ویانا کنونشن جس پر افغانستان نے دستخط کر رکھے ہیں اس کی شق نمبر 11 کے مطابق ممالک کی تقسیم کے بعد بھی بین الاقوامی سرحدون کے لیے اس قسم کے معاہدوں کی پاسداری کی جائیگی۔ اسی کنونشن کے مطابق اس قسم کے پرانے مسئلوں کو بھی اسی کنونشن کے مطابق حل کیا جائیگا۔ تب افغانستان یہ دلیل بھی نہیں دے سکتا کہ ویانا کنونشن والا معاہدہ بعد میں ہوا ہے۔
ایک دلچسپ بات آپکو اور بتاتے ہیں۔ خاص کر انکو جو پشتونستان کے نعرے لگاتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت پشتونوں کی آبادی کم از کم 5 کروڑ سے اوپر ہے۔ جبکہ افغانستان میں انکی کل آبادی زیادہ سے زیادہ 2 کروڑ ہے۔ بلکہ افغانستان کی کل آبادی ہی 3 کروڑ ہے۔
اگر آج پاکستان کے پشتوں دعوی کر دیں کہ درحقیقت ہم سے افغانستان الگ ہوا تھا کونکہ ہم تعداد میں زیادہ ہیں اور افغانستان کو واپس پاکستان کا حصہ بننا چاہئے تو جمہوری اصول کے تحت پشتونستان کا نعرہ لگانے والے اس کی مخالفت نہیں کر سکتے!
لیکن پشتون تو چھوڑیں اب تو وہ افغانی بھی افغانستان میں واپس جانے کے لیے تیار نہیں جن کو روسی حملے کے بعد پاکستان نے پناہ دی تھی