What's new

Before his death ... King Abdullah predicts Prince Muhammad bin Salman tobecome the king of KSA (Vi

MBS is a two faced sword, he could ruin the country with inexperiance and aggression or elivate with his youthfullness and vision

I give 70 percent to first choice & 30 percent to second
 
.
Naif is a traitor and he has even tried to kill King Salman.
He was supported by the USA.
And if naif was traitor and USA agent why Salmanforget Muslim nation when Trump was in ksa he put everything to make Trump happy

I don't understand the logic fact is Salman since he became king problems for Muslims get bigger in makkah Holly city for sake of his own kingship his people making problem for Qatari hajus

In ramzan he stops food for fellow Muslims

Salman is working on Jew agenda sooner u see ksa recognize Israel and Israeli embassy in riyadh
 
.
An article by Orya Maqbool (could not find an english version)

ویل للعرب - عرب کے لیے تباہی

جون 23, 2017

سیدالانبیاء مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ کی گونج اس وقت پوری دنیا میں‌ سنائی دے رہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا “ویل للعرب ،مِن شرقد اقرتب” عرب کے لیے تباہی ہے، اس فتنے کے جوبہت نزدیک آ چکا ہے(بخاری، کتاب الیقین) ہی نہی بلکہ فرمایا” قبائل میں‌ سب سے جلدی ختم ہونے والا قبیلہ قریش ہے. قریب ہے کوئی عورت کسی جوتی کے پاس سے گزرے اورکہے!یہ قریشی کی جوتی ہے(مسند احمد) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا” اے عائشہ میری امت میں سے تیری قوم بہت جلد محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے والی ہے، پوچھا کس وجہ سے، فرمایا موت انہیں میٹھا پھل سمجھی ہے اوران کی موت پرسانسیں لیتی ہے، پوچھا اس وقت لوگوں کی کیفیت کیا ہوگی، فرمایا “طاقتورٹڈی دل’ کمزورکو کھا جائے گی(مسند احمد) کیا آج مشرقِ وسطیٰ اورعرب ممالک کا نقشہ ایسا ہی نہیں ہے، یوں‌لگتا ہے کہ سب کے سب جنگ کی جانب خوفناک رفتار سے بڑھ رہےہیں. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مناظر واضح‌ ہوتے جا رہے ہیں، فرمایا “بیت المقدس کی آبادی مدینہ کی تخریب کا سبب ہے” پھرسیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ‌ عنہ کے کندھے پرہاتھ رکھ کرفرمایا، بے شک یہ ایسا ہونا اسی طرح‌ حق اورسچ ہےجیسے تمہارا یہاں ہونا، بیٹھا ہونا حق ہے(ابوداؤد) لیکن اس سب کا آغاز ام المومنین‌ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے ہے کہ ایک خلیفہ کی موت کے وقت لوگوں کو اختلاف ہو جائے گا( ابو داؤد). اس کے بعد وہ تمام واقعات ترتیب سے بتائے گئےہیں‌جو قربِ قیامت میں‌ وقوع پذیرہونے ہیں.
شہزادہ محمد بن سلمان کی اچانک ولی عہد نامزدگی سے صرف تین دن قبل اسرائیل کا مشہوراخبار ہیرٹز(Harretz) اپنی اشاعت میں‌ ٹائمز کی رپورٹ پر بحث کرتا ہے کہ اسرائیل اورسعودی عرب کے درمیان‌ اقتصادی تعاون کے لیے گفتگو کا آغاز ہوچکا ہے. وہ اس برطانوی اخبار کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اس اقتصادی تعاون کا آغاز خلیج ممالک میں‌ اسرائیلی کاروباری اداروں کو اجازت اوراسرائیل کی ایئرلائین ELAL کو سعودی عرب کی فضائی حدود میں‌ پرواز کرنے سے ہوسکتا ہے. یہاں‌ وہ ایک بہت بڑا انکشاف کرتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا داماد جیرڈ کشنرJared Kushner سے شہزادہ محمد بن سلمان کی دوستی عروج پرہے. جارد ایک یہودی ہے اورٹرمپ کا ایڈوائزربھی ہے. اخبار کے مطابق دونوں اس بات پرمتفق چکے ہیں کہ سعودی عرب اوراسرائیل کے آپس میں بہترتعلقات اسرائیل اورفلسطین کے درمیان امن قائم کرنے میں‌ مدد دیں‌گے. یہی تعلقات میں بہتری تھی جس نے سعودی عرب اورخلیج کی ریاستوں کومجبورکیا کہ وہ قطر سے تعلقات ختم کردیں کیونکہ وہ حماس کی مدد کررہاہے. عربوں نے اسرائیل کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ ہم قطرکی ناکہ بندی آپ کی وجہ سے کررہے ہیں لیکن اسرائیل کے وزیردفاع ایوگدورلبرمین Avigdor Liberman نے کہا کہ عرب ممالک اورقطر کے درمیان اختلافات اورموجودہ بائیکاٹ کا اسرائیل فلسطین سے کوئی تعلق نہیں‌ہے بکلہ یہ ان حکومتوں کا وہ خوف ہے جو سخت گیراسلامی نظریات کے علاقے میں پھیلنے سے پیدا ہواہے. اس نے کہا کہ اسرائیل سے تعلقات کوفلسطین کے مسئلے کے ساتھ جوڑنا بہت بڑی غلطی ہوگی. دیکھومصراوراردن کے اسرائیل کے ستاھ کس قدر شاندارتعلقات ہیں اورانہوں نے کبھی فلسطین کے مسئلے کواس کی راہ میں‌ رکاوٹ نہیں بننے دیا. اس تناظر میں محمد بن سلمان کی ولی عہد نامزدگی کودیکھئے. کیا یہ سب اچانک ہوگیا، ہرگز نہیں مشہور صحافی جمال اشائل ِJamal Elshyyel اپنے ایک مضمون میں‌ لکھتا ہے کہ اسے آج سے چند ماہ قبل خلیج کے ممالک میں ایک ملک کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے گھردعوت میں جانے کا اتفاق ہوا جس میں بہت اہم شخصیات کے علاوہ ایک مغربی ملک کا سفارتکاربھی موجود تھا. وہاں انکشاف ہوا کہ سعودی وزیرِ خارجہ عادل الجبیرخفیہ طورپرامریکہ کے دوہفتے کے دورے پرگیا تھا، جہاں اس کی ملاقاتوں‌ کوبھی خفیہ رکھا گیا. خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے اس سابق وزیرِ اعظم سے پوچھا کہ وہ وہاں کیا کرنے گیا تھا تواس نے جوباتیں بتائیں وہ ناقابلِ یقین لگتی ہیں تھیں لیکن آج حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہی ہیں. اس نے کہا کہ محمد بن سلمان جوصرف اکتیس سال کا ہے لیکن بادشاہ بننے کے لیے شدید بے تاب ہے اوراس کے لیے متحدہ عرب امارات نے ایک سکیم امریکی آشیرباد سے بنائی ہے. متحدہ عرب امارات کا 2014ء میں‌ شاہ عبد اللہ کے انتقال کے بعد سعودی شاہی خاندان میں اثرورسوخ بہت کم ہوگیا تھا جسے وہ بحال کرنا چاہتے ہیں لیکن اس بات پرامریکیوں کو قائل کرنے کے لیے اسے اپنے راستے کے سب سے بڑے کانٹے ولی عہد محمد بن نائف کوراستے سے ہٹانا ہوگا، جو بہت مشکل ہے کیونکہ اسے “واشنگٹن کا پسندیدہ سعودی” کے لقب سے جانا جاتا ہے. اس سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ محمد بن سلمان نے اگرامریکیوں کو قائل کرنا ہے توپھراسے محمد بن نائف سے بڑھ کرکوئی پیشکش کرنا ہوگی. میٹنگ میں سناٹا چھا گیا، ہرکوئی سوچ رہا تھا کہ ایسی کیا پیشکش ہوگی تو خاموشی توڑتے ہوئے اس نے کہا “اسرائیل کو تسلیم کرنا” اگراس نے ایسا کہ دیا توامریکی اس کوسعودی تخت پربٹھانے کی پوری کوشش کریں گے. جمال کہتا ہے کہ میں نے فوراَ کہا کہ وہ ایسا کبھی نہیں کرسکے گا، سعودی عوام اسے قبول نہیں کرے گی، یہ ان کے ساتھ غداری ہوگی، لیکن یہ سب کچھ ہوچکا اوراب اگلے مرحلے کا انتظارہے.
سعودی خاندان میں اقتدار کی تبدیلی، ایک بہت پرسکون اورپرامن مرحلہ ہوتا ہے اورمکمل وفاداری کا اظہاربرسرعام کیا جاتا ہے. 2011ء کے حج کے دوران مجھے ایک منظردیکھنے کا اتفاق ہوا. سعودی حکومت نے حج سے ایک روز قبل ہمیں‌ کہا کہ آپ کوعرفات میں‌ اپنے حج انتظامات دکھانے کے لیے لے کرجانا ہے حج کے دن سے ایک روز قبل ہی عرفات کے میدان جانا بھی عجیب وغریب تجربہ تھا. اس تقریب کا مہمان خصوصی نیا ولی عہد نائف بن عبدلعزیز تھا. وہ لوگوں کے سہارے چلتا ہوا پنڈال میں داخل ہوا، سامنے مسلح افواج، پولیس اورحج کے انتظامات کرنے والے افراد کے دستے موجود تھے ، داخل ہوتے ہی ایک آواز بلند ہوئی “سلام الملکی” یعنی بادشاہت کوسلام، سب کے سب ایک دم رکوع کی حالت میں چلے گئے. عرفات کے میدان میں یہ منظردیکھ کرمیں کانپ اٹھا. نائف بن عبدلعزیز ان لوگوں میں سے تھا جسے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں امریکہ اپنا سب سے بااعتماد ساتھی سمجھتا تھا. سعودی عرب میں جتنے اسلامی انقلاب کے داعی اورخلافت علیٰ منہاج النبوہ کے علمبردار تھے، ان کا قلع قمع کرنے میں اس کا اہم کردار تھا. اسے بھی امریکہ نے سلطان بن عبدلعزیزکے ساتھ دوسرا ولی عہد نامزد کروایا تھا. سلطان بن عبدلعزیزکوپاکستان کے علاقے چاغی میں تلورکے شکارکے لیے علاقہ الاٹ تھا. میں جن دنوں چاغی کا ڈپٹی کمشنرتھا، وہ وہاں شکار کھیلنے آیا تھا. آخری الوداعی دعوت میں اس سے ملاقات کا تاثرنائف بن عبدلعزیز کے “سلام الملکی” سے مختلف نہیں تھا. ایک بڑے سے خیمے میں دوعت کا اہتمام تھا. سلمان بن عبدلعزیز میزبان تھا اورہم مہمان، لیکن ہم اس خیمے میں میزبان کا انتظارکررہے تھے. فرشی نشست پرمیرے دونوں جانب اس کے قافلے میں شامل دو عرب بیٹھے تھے. دعوت کی ترتیب کے حساب سے میں خاص مہمان تھا، کیونکہ وہ جس ضلع میں شکار کرنے آیا تھا میں کی انتظامیہ کا سربراہ تھا. کافی انتظار کے بعد آواز بلند ہوئی کہ ولی عہد تشریف لا رہے ہیں. میں نے اٹھنے میں ذرا سی دیر کی تومیرے دائیں بائیں بیٹھے عربون نے مجھے بازوؤں سے پکڑ کرکھڑا کردیا. ایک ہی مزاج، ایک جیسی رعونت، لیکن ایک امریکہ کے سامنے جھک گیا اورولی عہد بن گیا. اس کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے محمد بن نائف کوولی عہد بنایا گیا کہ پاب کے نقشِ قدم پرچلے گا لیکن محمد بن سلمان نے ایسا کیا کرکے دکھانے کا وعدہ کیا ہے کہ وہ واشنگٹن کے پسندیدہ سعودی کی جگہ لینے میں کامیاب ہوگیا ہے. (جاری ہے)

 
Last edited:
.
This news remind me Benazir ki will Zardari ka naam . PPP chairman ...

ویل للعرب - عرب کے لیے تباہی
جون 23, 2017

سیدالانبیاء مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ کی گونج اس وقت پوری دنیا میں‌ سنائی دے رہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا “ویل للعرب ،مِن شرقد اقرتب” عرب کے لیے تباہی ہے، اس فتنے کے جوبہت نزدیک آ چکا ہے(بخاری، کتاب الیقین) ہی نہی بلکہ فرمایا” قبائل میں‌ سب سے جلدی ختم ہونے والا قبیلہ قریش ہے. قریب ہے کوئی عورت کسی جوتی کے پاس سے گزرے اورکہے!یہ قریشی کی جوتی ہے(مسند احمد) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا” اے عائشہ میری امت میں سے تیری قوم بہت جلد محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے والی ہے، پوچھا کس وجہ سے، فرمایا موت انہیں میٹھا پھل سمجھی ہے اوران کی موت پرسانسیں لیتی ہے، پوچھا اس وقت لوگوں کی کیفیت کیا ہوگی، فرمایا “طاقتورٹڈی دل’ کمزورکو کھا جائے گی(مسند احمد) کیا آج مشرقِ وسطیٰ اورعرب ممالک کا نقشہ ایسا ہی نہیں ہے، یوں‌لگتا ہے کہ سب کے سب جنگ کی جانب خوفناک رفتار سے بڑھ رہےہیں. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مناظر واضح‌ ہوتے جا رہے ہیں، فرمایا “بیت المقدس کی آبادی مدینہ کی تخریب کا سبب ہے” پھرسیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ‌ عنہ کے کندھے پرہاتھ رکھ کرفرمایا، بے شک یہ ایسا ہونا اسی طرح‌ حق اورسچ ہےجیسے تمہارا یہاں ہونا، بیٹھا ہونا حق ہے(ابوداؤد) لیکن اس سب کا آغاز ام المومنین‌ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے ہے کہ ایک خلیفہ کی موت کے وقت لوگوں کو اختلاف ہو جائے گا( ابو داؤد). اس کے بعد وہ تمام واقعات ترتیب سے بتائے گئےہیں‌جو قربِ قیامت میں‌ وقوع پذیرہونے ہیں.
شہزادہ محمد بن سلمان کی اچانک ولی عہد نامزدگی سے صرف تین دن قبل اسرائیل کا مشہوراخبار ہیرٹز(Harretz) اپنی اشاعت میں‌ ٹائمز کی رپورٹ پر بحث کرتا ہے کہ اسرائیل اورسعودی عرب کے درمیان‌ اقتصادی تعاون کے لیے گفتگو کا آغاز ہوچکا ہے. وہ اس برطانوی اخبار کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اس اقتصادی تعاون کا آغاز خلیج ممالک میں‌ اسرائیلی کاروباری اداروں کو اجازت اوراسرائیل کی ایئرلائین ELAL کو سعودی عرب کی فضائی حدود میں‌ پرواز کرنے سے ہوسکتا ہے. یہاں‌ وہ ایک بہت بڑا انکشاف کرتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا داماد جیرڈ کشنرJared Kushner سے شہزادہ محمد بن سلمان کی دوستی عروج پرہے. جارد ایک یہودی ہے اورٹرمپ کا ایڈوائزربھی ہے. اخبار کے مطابق دونوں اس بات پرمتفق چکے ہیں کہ سعودی عرب اوراسرائیل کے آپس میں بہترتعلقات اسرائیل اورفلسطین کے درمیان امن قائم کرنے میں‌ مدد دیں‌گے. یہی تعلقات میں بہتری تھی جس نے سعودی عرب اورخلیج کی ریاستوں کومجبورکیا کہ وہ قطر سے تعلقات ختم کردیں کیونکہ وہ حماس کی مدد کررہاہے. عربوں نے اسرائیل کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ ہم قطرکی ناکہ بندی آپ کی وجہ سے کررہے ہیں لیکن اسرائیل کے وزیردفاع ایوگدورلبرمین Avigdor Liberman نے کہا کہ عرب ممالک اورقطر کے درمیان اختلافات اورموجودہ بائیکاٹ کا اسرائیل فلسطین سے کوئی تعلق نہیں‌ہے بکلہ یہ ان حکومتوں کا وہ خوف ہے جو سخت گیراسلامی نظریات کے علاقے میں پھیلنے سے پیدا ہواہے. اس نے کہا کہ اسرائیل سے تعلقات کوفلسطین کے مسئلے کے ساتھ جوڑنا بہت بڑی غلطی ہوگی. دیکھومصراوراردن کے اسرائیل کے ستاھ کس قدر شاندارتعلقات ہیں اورانہوں نے کبھی فلسطین کے مسئلے کواس کی راہ میں‌ رکاوٹ نہیں بننے دیا. اس تناظر میں محمد بن سلمان کی ولی عہد نامزدگی کودیکھئے. کیا یہ سب اچانک ہوگیا، ہرگز نہیں مشہور صحافی جمال اشائل ِJamal Elshyyel اپنے ایک مضمون میں‌ لکھتا ہے کہ اسے آج سے چند ماہ قبل خلیج کے ممالک میں ایک ملک کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے گھردعوت میں جانے کا اتفاق ہوا جس میں بہت اہم شخصیات کے علاوہ ایک مغربی ملک کا سفارتکاربھی موجود تھا. وہاں انکشاف ہوا کہ سعودی وزیرِ خارجہ عادل الجبیرخفیہ طورپرامریکہ کے دوہفتے کے دورے پرگیا تھا، جہاں اس کی ملاقاتوں‌ کوبھی خفیہ رکھا گیا. خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے اس سابق وزیرِ اعظم سے پوچھا کہ وہ وہاں کیا کرنے گیا تھا تواس نے جوباتیں بتائیں وہ ناقابلِ یقین لگتی ہیں تھیں لیکن آج حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہی ہیں. اس نے کہا کہ محمد بن سلمان جوصرف اکتیس سال کا ہے لیکن بادشاہ بننے کے لیے شدید بے تاب ہے اوراس کے لیے متحدہ عرب امارات نے ایک سکیم امریکی آشیرباد سے بنائی ہے. متحدہ عرب امارات کا 2014ء میں‌ شاہ عبد اللہ کے انتقال کے بعد سعودی شاہی خاندان میں اثرورسوخ بہت کم ہوگیا تھا جسے وہ بحال کرنا چاہتے ہیں لیکن اس بات پرامریکیوں کو قائل کرنے کے لیے اسے اپنے راستے کے سب سے بڑے کانٹے ولی عہد محمد بن نائف کوراستے سے ہٹانا ہوگا، جو بہت مشکل ہے کیونکہ اسے “واشنگٹن کا پسندیدہ سعودی” کے لقب سے جانا جاتا ہے. اس سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ محمد بن سلمان نے اگرامریکیوں کو قائل کرنا ہے توپھراسے محمد بن نائف سے بڑھ کرکوئی پیشکش کرنا ہوگی. میٹنگ میں سناٹا چھا گیا، ہرکوئی سوچ رہا تھا کہ ایسی کیا پیشکش ہوگی تو خاموشی توڑتے ہوئے اس نے کہا “اسرائیل کو تسلیم کرنا” اگراس نے ایسا کہ دیا توامریکی اس کوسعودی تخت پربٹھانے کی پوری کوشش کریں گے. جمال کہتا ہے کہ میں نے فوراَ کہا کہ وہ ایسا کبھی نہیں کرسکے گا، سعودی عوام اسے قبول نہیں کرے گی، یہ ان کے ساتھ غداری ہوگی، لیکن یہ سب کچھ ہوچکا اوراب اگلے مرحلے کا انتظارہے.
سعودی خاندان میں اقتدار کی تبدیلی، ایک بہت پرسکون اورپرامن مرحلہ ہوتا ہے اورمکمل وفاداری کا اظہاربرسرعام کیا جاتا ہے. 2011ء کے حج کے دوران مجھے ایک منظردیکھنے کا اتفاق ہوا. سعودی حکومت نے حج سے ایک روز قبل ہمیں‌ کہا کہ آپ کوعرفات میں‌ اپنے حج انتظامات دکھانے کے لیے لے کرجانا ہے حج کے دن سے ایک روز قبل ہی عرفات کے میدان جانا بھی عجیب وغریب تجربہ تھا. اس تقریب کا مہمان خصوصی نیا ولی عہد نائف بن عبدلعزیز تھا. وہ لوگوں کے سہارے چلتا ہوا پنڈال میں داخل ہوا، سامنے مسلح افواج، پولیس اورحج کے انتظامات کرنے والے افراد کے دستے موجود تھے ، داخل ہوتے ہی ایک آواز بلند ہوئی “سلام الملکی” یعنی بادشاہت کوسلام، سب کے سب ایک دم رکوع کی حالت میں چلے گئے. عرفات کے میدان میں یہ منظردیکھ کرمیں کانپ اٹھا. نائف بن عبدلعزیز ان لوگوں میں سے تھا جسے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں امریکہ اپنا سب سے بااعتماد ساتھی سمجھتا تھا. سعودی عرب میں جتنے اسلامی انقلاب کے داعی اورخلافت علیٰ منہاج النبوہ کے علمبردار تھے، ان کا قلع قمع کرنے میں اس کا اہم کردار تھا. اسے بھی امریکہ نے سلطان بن عبدلعزیزکے ساتھ دوسرا ولی عہد نامزد کروایا تھا. سلطان بن عبدلعزیزکوپاکستان کے علاقے چاغی میں تلورکے شکارکے لیے علاقہ الاٹ تھا. میں جن دنوں چاغی کا ڈپٹی کمشنرتھا، وہ وہاں شکار کھیلنے آیا تھا. آخری الوداعی دعوت میں اس سے ملاقات کا تاثرنائف بن عبدلعزیز کے “سلام الملکی” سے مختلف نہیں تھا. ایک بڑے سے خیمے میں دوعت کا اہتمام تھا. سلمان بن عبدلعزیز میزبان تھا اورہم مہمان، لیکن ہم اس خیمے میں میزبان کا انتظارکررہے تھے. فرشی نشست پرمیرے دونوں جانب اس کے قافلے میں شامل دو عرب بیٹھے تھے. دعوت کی ترتیب کے حساب سے میں خاص مہمان تھا، کیونکہ وہ جس ضلع میں شکار کرنے آیا تھا میں کی انتظامیہ کا سربراہ تھا. کافی انتظار کے بعد آواز بلند ہوئی کہ ولی عہد تشریف لا رہے ہیں. میں نے اٹھنے میں ذرا سی دیر کی تومیرے دائیں بائیں بیٹھے عربون نے مجھے بازوؤں سے پکڑ کرکھڑا کردیا. ایک ہی مزاج، ایک جیسی رعونت، لیکن ایک امریکہ کے سامنے جھک گیا اورولی عہد بن گیا. اس کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے محمد بن نائف کوولی عہد بنایا گیا کہ پاب کے نقشِ قدم پرچلے گا لیکن محمد بن سلمان نے ایسا کیا کرکے دکھانے کا وعدہ کیا ہے کہ وہ واشنگٹن کے پسندیدہ سعودی کی جگہ لینے میں کامیاب ہوگیا ہے. (جاری ہے)

who is the writer ?
 
. . . .
In a famous interview with the Washington Post in April (2017), the prince said: “I’m young. Seventy percent of our citizens are young. We don’t want to waste our lives in this whirlpool that we were in the past 30 years (due to the Khomeini revolution which produced extremism and terrorism.) We want to end this epoch now. We want, the Saudi people, to enjoy the coming days, and concentrate on developing our society and developing ourselves as individuals and families, while retaining our religion and customs. We will not continue to be in the post 1979 era. That age is over.”


It's clear now ? ^^



...
To enjoy the coming days he gotta learn to share power and let people decide ..
 
. .
You are emotional and impulsive , true power of a country indeed comes from its people whether be it Iran or KSA what I said is what a true leader needs to think of everyday ... and all societies have rich/poor people the point is willingness amognst its people to margin it ... and about protests do you know any country which has never faced such a thing? at least there is an election in Iran what about KSA? the smae Mullah you mentioned have held more than 37 elections in Iran with high turns ...
 
.

Country Latest Posts

Back
Top Bottom