What's new

اسلام آباد کی جدید یونیورسٹی میں جنات اور کالا جادو پر ورکشاپ 07-11-2016 پرویز ہود بھائی 0

pak-marine

ELITE MEMBER
Joined
May 3, 2009
Messages
11,639
Reaction score
-22
Country
Pakistan
Location
Pakistan
سائنس و ٹیکنالوجی کالم۔
اسلام آباد کی جدید یونیورسٹی میں جنات اور کالا جادو پر ورکشاپ
07-11-2016 پرویز ہود بھائی 0 View

پچھلے ہفتے کومسیٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیو کہ پاکستان ک
ی بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے کہ اسلام آباد کیمپس کے شعبہ ہومینیٹیز کے زیر اہتمام ایک ورکشاپ ’’ جنات اور کالا جادو‘‘ کے نام سے منعقدہوئی۔ مہمان سپیکر راجہ ضیاء الحق تھے جن کے متعلق بتایا گیا کہ وہ روحانی کارڈیالوجسٹ، کالی بلاؤں اور دوسرے عملیات کے ماہر ہیں۔ وہ اتنے مقبول ہیں کہ اخبار میں چھپی تصویر کے مطابق ہال طالب علموں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔

انہوں نے جنات اور کالے جادو کے جواز میں ایک دلچسپ دلیل دی۔ راجہ صاحب نے ان دیکھی مخلوق کو تین اقسام میں تقسیم کیا۔ ایک جو اڑتی ہیں، دوسری وہ جو حالات کے مطابق اپنی شکل و صور ت تبدیل کرتی ہیں اور تیسری وہ جن کا مسکن تاریک جگہیں یا کوڑے کے ڈھیر ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا اگر ان کا وجود نہیں ہے تو پھر ہر سال ہالی ووڈ بھاری سرمائے سے ڈراؤنی فلمیں کیوں تیار کرتا ہے ۔

ذرا ٹھہریے کیا یہ دلیل آپ کو مجبورکرتی ہے کہ ہالی وڈ کی مقبول چڑیلیں ، بدروحیں اور عجیب الخلقت جانور، خیالی کی بجائے حقیقت میں وجود رکھتے ہیں۔ یقیناًاس طرح کا بچگانہ دعوے کو ہال میں موجود کوئی بھی آسانی سے چیلنج کر سکتا ہے۔ لیکن ایسے مواقع پر منتظمین کی کوشش ہوتی ہے کہ مبلغ کی تین گھنٹے کی تقریر میں کوئی خلل نہ پڑے اور وہ اپنی بات بغیر کسی مداخلت کے مکمل کرے۔

اب آگے کیا ہونا چاہیے؟ شاید کومسیٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ، جنات پر مشتمل ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک تشکیل دے سکتی ہے یا پھر ایسے جناتی میزائل تیار کر سکتی ہے جو راڈار میں نظر نہ آئیں۔ جنات پر مشتمل کیمسٹری کے ذریعے بہت سے کام کیے جا سکتے ہیں۔ جنرل ضیاء کے دور میں جنات سے بجلی پیدا کرنے کا مشور ہ بھی دیا گیا تھا۔ یہ مشورہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سینئر ڈائریکٹر نے دیا تھا کہ جنات کی مدد سے ایٹمی اور کوڑا کرکٹ سے ایندھن تیار کیا جا سکتا ہے۔

اس طرح کی ورکشاپ کا انعقاد کوئی نئی بات نہیں۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس طرح کے روحانی سپیکرز بلائے جاتے ہیں۔ جو موجودہ سائنسی علم سے ماورا علم بیان کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی کی ایک میٹنگ کا موضوع تھا ’’ آدمی کے آخری لمحات‘‘۔ پوسٹر میں دکھایا گیا کہ ادھیڑ عمر کا شخص پرانی کشتی میں قبرستان سے گذرتا دکھایا گیا ہے ۔ حسب معمول ہال طالب علموں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا(جیسا کہ مجھے بتایا گیا تھا)۔اس لیکچر میں مرنے کے بعد کی زندگی کوکچھ خاکوں کی مدد سے سمجھایا گیاتھا۔ اس اطلاع کا ذریعہ شاید وہ خفیہ ایس ایم ایس تھے جو سپیکر کو قبر کے اندر سے بھیجے گئے تھے۔

کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ پاکستان کی مہنگی ترین یونیورسٹی ایسی خرافات سے پاک ہو گی۔ لمز یعنی لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز ملک کی مہنگی ترین یونیورسٹی ہے اس کا سکول آف سائنس اینڈ انجینئرنگ امریکی ڈالرز کی مدد سے تعمیر کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ یہاں کوئی سنجیدہ کام ہو گالیکن لمزکے کئی پروفیسر سائنسی سوچ کا مذاق اڑاتے ہیں۔

اتفاق سے اس سال کے شروع میں مجھے یہاں ہومینیٹیز کے ایک پروفیسر صاحب کا لیکچر سننے کا موقع ملا ۔ اس لیکچر کی خاص بات سائنس پر لعنت ملامت کرنا تھی۔انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ وہ فزکس نہیں جانتے ۔ انہوں نے پیشہ ور ناقد کے طور پر سائنس کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا اور پھر دعویٰ کیا کہ 1923 میں فزکس کا نوبل پرائز جو رابرٹ میلیکان کو دیا گیا تھا وہ اس کا حقد ار نہیں تھا کیونکہ یہ انعام منظور نظر افراد کو دیا جاتا ہے۔

ابھی میں حیران پریشان یہ لیکچر سن رہا تھا کہ اتنے میں پروفیسر صاحب نے آئن سٹائن کی مشہور مساوات E= mc2 کو غلط ثابت کرنا شروع کیا تو میری پلکیں جھپکنا بند ہو گئیں اور ایسا لگا کہ دل کی دھڑکن رک گئی ہے۔ ایٹم بم پھٹے گا یا نیو کلیئر ری ایکٹر کتنی بجلی پیدا کرے گا تو کیا ہو گا؟یقیناًیہ کام جنات کا ہوگا۔ لیکن وہ ایسے دعوے کرنے میں اکیلے نہیں ہیں۔



لمز کے بیالوجی کے شعبہ صدر نے تمام فیکلٹی کو ایک ای میل بھیجی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ قرآنی آیات کی تلاوت کرنے یا سننے سے ’’ جینز اور میٹابولائیٹ‘‘ کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور تجویز دی کہ ہسپتالوں میں آڈیو وژول کمرے بنائے جائیں تاکہ اس مرض کے مریضوں کا علاج کیا جا سکے۔

مغربی سائنس سے توجہ ہٹانے کے لیے پچھلے ماہ لمز نے پاکستان کے ایک اعلیٰ اور قابل ترین میتھ میٹیکل فزسسٹ کو اس کی مدت ملازمت پورے ہونے سے پہلے ہی فارغ کر دیا ۔خوش قسمتی سے اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا کیونکہ اسے جلد ہی ہارورڈ، پریسٹن یا ایم آئی ٹی( جہاں سے اس نے پی ایچ ڈی کی تھی) میں جاب ملنے والی ہے۔

مافوق الفطرت اور سازشی نظریات کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بات حیران کن نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستان کی سب سے بڑی پبلک یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ نائن الیون کا واقعہ امریکہ نے خود کروایا تھا۔ اپنے اخبار ی انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ دنیا کا تمام معاشی نظام ، مانٹی کارلو میں مقیم یہودی کنٹرول کر رہے ہیں۔



آپ کو بہت جلد اس طرح کی مزید سازشی تھیوریاں سننے کا موقع ملے گا۔ کیونکہ مشہور زمانہ زید حامد، سعودی عرب کی جیل میں کئی سال کی قید اور ایک ہزار کوڑوں کی سزا سے بچ کر پاکستان واپس پہنچ گئے ہیں اور جلد ہی یہ شعلہ بیان مقرر پہلے کی طرح پاکستان کے تعلیمی اداروں کا دورہ کرتے نظر آئیں گے۔

ہمارے تعلیمی اداروں میں بغیر دلیل اور سائنس مخالف رویوں کی بھر مار ہے۔ہوسکتا ہے آپ کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو۔ نہیں بالکل نہیں۔ ایک لمحے کے لیے سوچیں ۔ سائنس کو غلط ثابت کرنا بہت آسان ہے ۔ سائنس کو رد کرنے کا مطلب ہے آپ بہت بڑی ذہنی مشقت اور مشکل کام سے بچ جاتے ہیں یعنی فزکس اور میتھ سے جان چھوٹ جاتی ہے۔ سائنس کو برا بھلا کہنا آسان ہے بہ نسبت اس کو سمجھنا۔

اس کے بہت سے فائدے ہیں ۔ ذہنی معذوری جیسے کہ ہسٹریا ، نیورو سرجن یا کلینکل سائیکالوجسٹ کے بغیر آپ جنات کی مدد سے اس کا علاج کر سکتے ہیں۔ ایک مقامی پیر بھی یہ علاج کر سکتا ہے۔ آپ کو میٹرولوجی سائنس پڑھنے کی بجائے جنات کے ذریعے ہوا کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور زلزلوں کی تحقیق کرنے کی تو کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تو ہمارے غلط اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

جہاں تک عام سے کھلونوں یا اوزار جیسے کہ کمپیوٹر اور سیل فون کا معاملہ ہے، تو یہ ہم اپنے سعودی بھائیوں کی طرح، ہمیشہ ایپل، سام سنگ اور نوکیا کے خریدیں گے۔ کوئی پیسے کی بھوکی زنگ زینگ زونگ کمپنی سیل فون چلانے کے لیے پاکستان میں اپنانیٹ ورک قائم کر لے گی۔ ٹیکنالوجی یا کوئی چیز ایجاد کرنے جیسا گندہ کام ہم نے چینیوں، امریکیوں اور یورپین کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ ان کے جنات کو معلوم ہے کہ اپنا کام کیسے کرنا ہے۔

پاکستان کے تعلیمی اداروں کو روشن خیالی کا منبع ہونا چاہیے۔کھلے ذہن کے ساتھ نئی سوچ کو جگہ دینی چاہیے۔ نہیں تو یہ جانوروں کا باڑہ بن کر رہ جائیں گے۔ ذہنی طور پر سست اور نالائق پروفیسروں کی فوج کو ایسے طالب علموں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کی ہر بات پر سوال اٹھانے یا چیلنج کرنے کی بجائے اس پر سر تسلیم خم کریں ۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ مافوق الفطرت اور خیالی واقعات سنا کر 20 سے 25 سال کے نوجوانوں کو موت کا خوف دلا کرڈرایا جا سکتا ہے۔

تعلیمی اداروں میں اس طرح کے لیکچرز کے انعقاد کا مطلب ہے کہ پاکستان کی ثقافتی اور سماجی دانش مندی کا زوال تیز تر ہورہا ہے۔
 
Last edited:
Koi mujay btao yar yeh admi her waqt rota q rehta hy? Aur jinnat say iss ki kya dushmani hay bahi?
Lagta hai ais per bhee koi Jin char giya hai Jo itna lamba article chuss marnay ka liya lekha hai lol

Well coming back to the topic whatever these damn seculars and liberals say. Allah SWT , Prophet Muhammad (PBUH) and Quran mentions of Jin and devil world and the life in grave and hereafter . So we believe in it because it's part of our faith to believe in unseen. end of story and full stop.
 
Alas our neighbors approached Mars and we are still organizing workshops not related to science and technology.
Well workshops are done both related to science and technology and religion. I am also a Engineering Graduate. So I can safely say this.

Because in each university different societies have different roles to organize different types of events. Arts society to organize parties and other stuff, sports society to organize sports activities, thinkers society to organize intellectual and analytical events, adventure society to organize trips, Islamic Society to organize Islamic events and so on. Now if you want only Islamic Society to be kicked out and not to organize events then i have really big problem with that.
 
Koi mujay btao yar yeh admi her waqt rota q rehta hy? Aur jinnat say iss ki kya dushmani hay bahi?
He is a scientist and naturally opposes stuff which has no proof of existence and Inks his protest is writing when universities are found organizing seminars on Spirits / ghosts and black majic .. try reading the article and see what lame stuff is taugh by our lazy sciendaans
 
He is a scientist and naturally opposes stuff which has no proof of existence and Inks his protest is writing when universities are found organizing seminars on Spirits / ghosts and black majic .. try reading the article and see what lame stuff is taugh by our lazy sciendaans


This is the second time I am reading him complaining about the same thing. Workshops are just workshops yar.... it is not some thing that happens daily, he should know that.
 
سائنس و ٹیکنالوجی کالم۔
اسلام آباد کی جدید یونیورسٹی میں جنات اور کالا جادو پر ورکشاپ
07-11-2016 پرویز ہود بھائی 0 View




Are you trying to challenge Quran ?



پچھلے ہفتے کومسیٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی جو کہ پاکستان کی بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے کہ اسلام آباد کیمپس کے شعبہ ہومینیٹیز کے زیر اہتمام ایک ورکشاپ ’’ جنات اور کالا جادو‘‘ کے نام سے منعقدہوئی۔ مہمان سپیکر راجہ ضیاء الحق تھے جن کے متعلق بتایا گیا کہ وہ روحانی کارڈیالوجسٹ، کالی بلاؤں اور دوسرے عملیات کے ماہر ہیں۔ وہ اتنے مقبول ہیں کہ اخبار میں چھپی تصویر کے مطابق ہال طالب علموں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔

انہوں نے جنات اور کالے جادو کے جواز میں ایک دلچسپ دلیل دی۔ راجہ صاحب نے ان دیکھی مخلوق کو تین اقسام میں تقسیم کیا۔ ایک جو اڑتی ہیں، دوسری وہ جو حالات کے مطابق اپنی شکل و صور ت تبدیل کرتی ہیں اور تیسری وہ جن کا مسکن تاریک جگہیں یا کوڑے کے ڈھیر ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا اگر ان کا وجود نہیں ہے تو پھر ہر سال ہالی ووڈ بھاری سرمائے سے ڈراؤنی فلمیں کیوں تیار کرتا ہے ۔

ذرا ٹھہریے کیا یہ دلیل آپ کو مجبورکرتی ہے کہ ہالی وڈ کی مقبول چڑیلیں ، بدروحیں اور عجیب الخلقت جانور، خیالی کی بجائے حقیقت میں وجود رکھتے ہیں۔ یقیناًاس طرح کا بچگانہ دعوے کو ہال میں موجود کوئی بھی آسانی سے چیلنج کر سکتا ہے۔ لیکن ایسے مواقع پر منتظمین کی کوشش ہوتی ہے کہ مبلغ کی تین گھنٹے کی تقریر میں کوئی خلل نہ پڑے اور وہ اپنی بات بغیر کسی مداخلت کے مکمل کرے۔

اب آگے کیا ہونا چاہیے؟ شاید کومسیٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ، جنات پر مشتمل ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک تشکیل دے سکتی ہے یا پھر ایسے جناتی میزائل تیار کر سکتی ہے جو راڈار میں نظر نہ آئیں۔ جنات پر مشتمل کیمسٹری کے ذریعے بہت سے کام کیے جا سکتے ہیں۔ جنرل ضیاء کے دور میں جنات سے بجلی پیدا کرنے کا مشور ہ بھی دیا گیا تھا۔ یہ مشورہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سینئر ڈائریکٹر نے دیا تھا کہ جنات کی مدد سے ایٹمی اور کوڑا کرکٹ سے ایندھن تیار کیا جا سکتا ہے۔

اس طرح کی ورکشاپ کا انعقاد کوئی نئی بات نہیں۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس طرح کے روحانی سپیکرز بلائے جاتے ہیں۔ جو موجودہ سائنسی علم سے ماورا علم بیان کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی کی ایک میٹنگ کا موضوع تھا ’’ آدمی کے آخری لمحات‘‘۔ پوسٹر میں دکھایا گیا کہ ادھیڑ عمر کا شخص پرانی کشتی میں قبرستان سے گذرتا دکھایا گیا ہے ۔ حسب معمول ہال طالب علموں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا(جیسا کہ مجھے بتایا گیا تھا)۔اس لیکچر میں مرنے کے بعد کی زندگی کوکچھ خاکوں کی مدد سے سمجھایا گیاتھا۔ اس اطلاع کا ذریعہ شاید وہ خفیہ ایس ایم ایس تھے جو سپیکر کو قبر کے اندر سے بھیجے گئے تھے۔

کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ پاکستان کی مہنگی ترین یونیورسٹی ایسی خرافات سے پاک ہو گی۔ لمز یعنی لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز ملک کی مہنگی ترین یونیورسٹی ہے اس کا سکول آف سائنس اینڈ انجینئرنگ امریکی ڈالرز کی مدد سے تعمیر کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ یہاں کوئی سنجیدہ کام ہو گالیکن لمزکے کئی پروفیسر سائنسی سوچ کا مذاق اڑاتے ہیں۔

اتفاق سے اس سال کے شروع میں مجھے یہاں ہومینیٹیز کے ایک پروفیسر صاحب کا لیکچر سننے کا موقع ملا ۔ اس لیکچر کی خاص بات سائنس پر لعنت ملامت کرنا تھی۔انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ وہ فزکس نہیں جانتے ۔ انہوں نے پیشہ ور ناقد کے طور پر سائنس کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا اور پھر دعویٰ کیا کہ 1923 میں فزکس کا نوبل پرائز جو رابرٹ میلیکان کو دیا گیا تھا وہ اس کا حقد ار نہیں تھا کیونکہ یہ انعام منظور نظر افراد کو دیا جاتا ہے۔

ابھی میں حیران پریشان یہ لیکچر سن رہا تھا کہ اتنے میں پروفیسر صاحب نے آئن سٹائن کی مشہور مساوات E= mc2 کو غلط ثابت کرنا شروع کیا تو میری پلکیں جھپکنا بند ہو گئیں اور ایسا لگا کہ دل کی دھڑکن رک گئی ہے۔ ایٹم بم پھٹے گا یا نیو کلیئر ری ایکٹر کتنی بجلی پیدا کرے گا تو کیا ہو گا؟یقیناًیہ کام جنات کا ہوگا۔ لیکن وہ ایسے دعوے کرنے میں اکیلے نہیں ہیں۔



لمز کے بیالوجی کے شعبہ صدر نے تمام فیکلٹی کو ایک ای میل بھیجی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ قرآنی آیات کی تلاوت کرنے یا سننے سے ’’ جینز اور میٹابولائیٹ‘‘ کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور تجویز دی کہ ہسپتالوں میں آڈیو وژول کمرے بنائے جائیں تاکہ اس مرض کے مریضوں کا علاج کیا جا سکے۔

مغربی سائنس سے توجہ ہٹانے کے لیے پچھلے ماہ لمز نے پاکستان کے ایک اعلیٰ اور قابل ترین میتھ میٹیکل فزسسٹ کو اس کی مدت ملازمت پورے ہونے سے پہلے ہی فارغ کر دیا ۔خوش قسمتی سے اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا کیونکہ اسے جلد ہی ہارورڈ، پریسٹن یا ایم آئی ٹی( جہاں سے اس نے پی ایچ ڈی کی تھی) میں جاب ملنے والی ہے۔

مافوق الفطرت اور سازشی نظریات کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بات حیران کن نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستان کی سب سے بڑی پبلک یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ نائن الیون کا واقعہ امریکہ نے خود کروایا تھا۔ اپنے اخبار ی انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ دنیا کا تمام معاشی نظام ، مانٹی کارلو میں مقیم یہودی کنٹرول کر رہے ہیں۔



آپ کو بہت جلد اس طرح کی مزید سازشی تھیوریاں سننے کا موقع ملے گا۔ کیونکہ مشہور زمانہ زید حامد، سعودی عرب کی جیل میں کئی سال کی قید اور ایک ہزار کوڑوں کی سزا سے بچ کر پاکستان واپس پہنچ گئے ہیں اور جلد ہی یہ شعلہ بیان مقرر پہلے کی طرح پاکستان کے تعلیمی اداروں کا دورہ کرتے نظر آئیں گے۔

ہمارے تعلیمی اداروں میں بغیر دلیل اور سائنس مخالف رویوں کی بھر مار ہے۔ہوسکتا ہے آپ کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو۔ نہیں بالکل نہیں۔ ایک لمحے کے لیے سوچیں ۔ سائنس کو غلط ثابت کرنا بہت آسان ہے ۔ سائنس کو رد کرنے کا مطلب ہے آپ بہت بڑی ذہنی مشقت اور مشکل کام سے بچ جاتے ہیں یعنی فزکس اور میتھ سے جان چھوٹ جاتی ہے۔ سائنس کو برا بھلا کہنا آسان ہے بہ نسبت اس کو سمجھنا۔

اس کے بہت سے فائدے ہیں ۔ ذہنی معذوری جیسے کہ ہسٹریا ، نیورو سرجن یا کلینکل سائیکالوجسٹ کے بغیر آپ جنات کی مدد سے اس کا علاج کر سکتے ہیں۔ ایک مقامی پیر بھی یہ علاج کر سکتا ہے۔ آپ کو میٹرولوجی سائنس پڑھنے کی بجائے جنات کے ذریعے ہوا کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور زلزلوں کی تحقیق کرنے کی تو کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تو ہمارے غلط اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

جہاں تک عام سے کھلونوں یا اوزار جیسے کہ کمپیوٹر اور سیل فون کا معاملہ ہے، تو یہ ہم اپنے سعودی بھائیوں کی طرح، ہمیشہ ایپل، سام سنگ اور نوکیا کے خریدیں گے۔ کوئی پیسے کی بھوکی زنگ زینگ زونگ کمپنی سیل فون چلانے کے لیے پاکستان میں اپنانیٹ ورک قائم کر لے گی۔ ٹیکنالوجی یا کوئی چیز ایجاد کرنے جیسا گندہ کام ہم نے چینیوں، امریکیوں اور یورپین کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ ان کے جنات کو معلوم ہے کہ اپنا کام کیسے کرنا ہے۔

پاکستان کے تعلیمی اداروں کو روشن خیالی کا منبع ہونا چاہیے۔کھلے ذہن کے ساتھ نئی سوچ کو جگہ دینی چاہیے۔ نہیں تو یہ جانوروں کا باڑہ بن کر رہ جائیں گے۔ ذہنی طور پر سست اور نالائق پروفیسروں کی فوج کو ایسے طالب علموں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کی ہر بات پر سوال اٹھانے یا چیلنج کرنے کی بجائے اس پر سر تسلیم خم کریں ۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ مافوق الفطرت اور خیالی واقعات سنا کر 20 سے 25 سال کے نوجوانوں کو موت کا خوف دلا کرڈرایا جا سکتا ہے۔

تعلیمی اداروں میں اس طرح کے لیکچرز کے انعقاد کا مطلب ہے کہ پاکستان کی ثقافتی اور سماجی دانش مندی کا زوال تیز تر ہورہا ہے۔
 
While scientist in entire World (including Pakistan) are working & exploring new dimensions of knowledge & understanding, Parvez Hood Boy is still trapped in loop of Molvi - Ak47 - Hoor - Jinn .....
He is a scientist
I will love to listen his "scientific achievements".
Can you name few?
naturally opposes stuff which has no proof of existence
Absence of proof is not proof of absence.
 
this hood badood mardood is one of a kind!!

While talking about "the most expensive university of Pakistan" perhaps he should have mentioned the most expensive ones of the world and shed some light on the lectures there, there fraternities and rituals. West is as superstitious as we are if not more.
 
Absence of proof is not proof of absence.

Not according to the speaker and sciencedaan raja zia ul haq he has divided them into 3 categories already and according to his logic if no proof exists than why hollywood produces horror movies !!


انہوں نے جنات اور کالے جادو کے جواز میں ایک دلچسپ دلیل دی۔ راجہ صاحب نے ان دیکھی مخلوق کو تین اقسام میں تقسیم کیا۔ ایک جو اڑتی ہیں، دوسری وہ جو حالات کے مطابق اپنی شکل و صور ت تبدیل کرتی ہیں اور تیسری وہ جن کا مسکن تاریک جگہیں یا کوڑے کے ڈھیر ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا اگر ان کا وجود نہیں ہے تو پھر ہر سال ہالی ووڈ بھاری سرمائے سے ڈراؤنی فلمیں کیوں تیار کرتا ہے

Source: https://defence.pk/threads/اسلام-آب...-2016-پرویز-ہود-بھائی-0.459805/#ixzz4PJe23db6
 
Well workshops are done both related to science and technology and religion. I am also a Engineering Graduate. So I can safely say this.

Because in each university different societies have different roles to organize different types of events. Arts society to organize parties and other stuff, sports society to organize sports activities, thinkers society to organize intellectual and analytical events, adventure society to organize trips, Islamic Society to organize Islamic events and so on. Now if you want only Islamic Society to be kicked out and not to organize events then i have really big problem with that.
Arts,sports, adventure, Islamic societies are more active compared to societies related to innovation, research and product development. The day will come when countries like Bangladesh will provide us industrial equipment and man power. Mark my words.
 
Not according to the speaker and sciencedaan raja zia ul haq he has divided them into 3 categories already and according to his logic if no proof exists than why hollywood produces horror movies !!


انہوں نے جنات اور کالے جادو کے جواز میں ایک دلچسپ دلیل دی۔ راجہ صاحب نے ان دیکھی مخلوق کو تین اقسام میں تقسیم کیا۔ ایک جو اڑتی ہیں، دوسری وہ جو حالات کے مطابق اپنی شکل و صور ت تبدیل کرتی ہیں اور تیسری وہ جن کا مسکن تاریک جگہیں یا کوڑے کے ڈھیر ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا اگر ان کا وجود نہیں ہے تو پھر ہر سال ہالی ووڈ بھاری سرمائے سے ڈراؤنی فلمیں کیوں تیار کرتا ہے

Source: https://defence.pk/threads/اسلام-آباد-کی-جدید-یونیورسٹی-میں-جنات-اور-کالا-جادو-پر-ورکشاپ-07-11-2016-پرویز-ہود-بھائی-0.459805/#ixzz4PJe23db6
Answer my questions plz .......
 

Back
Top Bottom