دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہوجائیں گے ایسا لگتا ہے
کتنے دنوں کے پیاسے ہوں گے یارو سوچو تو
شبنم کا قطرہ بھی جن کو دریا لگتا ہے
آنکھوں کو بھی لے ڈوبا یہ دل کا پاگل پن
آتے جاتے جو ملتا ہے تم سا لگتا ہے
اس بستی میں کون ہمارے آنسو پونچھے گا
جو ملتا ہے اس کا دامن بھیگا...
چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
جو پہلے روز سے دو آنگنوں میں تھا حائل
وہ فاصلہ تو زمین آسمان میں بھی نہ تھا
یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے
یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا
ہوا نہ جانے کہاں لے گئی وہ تیر کہ جو
نشانے پر بھی نہ تھا...
انسان بعض دفعہ اپنی ذات کے بہت سے پہلوؤں سے اس وقت آگاہ ہوتا ہے جب دوسرے اسے دیکھ لیتے ہیں۔ ان کا اس سے واسطہ پڑجاتا ہے، وہ اس پر بات کرنے لگتے ہیں اور تب انسان جیسے شاک کے عالم میں اپنی ذات کے اس پہلو کو دیکھتا ہے۔ حیران ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کیسے کرسکتا ہوں؟ میں ایسا کس طرح کرسکتا ہوں؟ لیکن...
خودکشی کا جواز
ایک عورت کے لئے اس سے بڑھ کر خودکشی کا جواز اور کیا ہوسکتا ہے کہ دوسری عورت نے بھی اسی کے رنگ اور ڈیزائن کے کپڑے پہنے ہوں!
(مستنصر حسین تارڑ)
مجھے جب غصہ آتا تو قدرت اللہ میرے کان میں کہتا چھلنی بن جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ اس جھکڑ کو گزر جانے دو، اندر رکے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روکوگے تو چینی کی دکان میں ہاتھی گھس آئے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غصہ کھانے کی نہیں پینے کی چیز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں کسی چیز کے حصول کے لئے بار بار کوشش کرتا تو قدرت اللہ کی آواز آتی...
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
درد پھولوں کی طرح مہکے اگر تو آئے
بھیگ جاتی ہیں اس امید پہ آنکھیں ہر شام
شاید اس رات وہ مہتاب لب جو آئے
ہم تری یاد سے کترا کے گزر جاتے مگر
راہ میں پھولوں کے لب سایوں کے گیسو آئے
وہی لب تشنگی اپنی وہی ترغیب سراب
دشت معلوم کی ہم آخری حد چھو آئے...
طنز و مزاح
اکبر الہٰ آبادی کاتبوں کی ’’غلط نوازیوں‘‘ سے بہت دل برداشتہ خاطر رہتے تھے۔ مولانا ظفر الملک علوی (ایڈیٹر ماہنامہ الناظر) کو ایک خط (مطبوعہ الناظر، یکم جنوری ۱۹۱۰ میں تحریر فرماتے ہیں۔
’’اپنے مسودار خود نہیں پڑھ سکتا۔ کاتب کو ہدایت میں نہایت دقت ہوتی ہے۔ کاتب صاحب ایسے ’’ذی...
خواہش
جسے اللہ تعالیٰ اپنی محبت دیتا ہے، اسے پھر کسی اور چیز کی خواہش نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جسے وہ دنیا دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس کی خواہش بھوک بن جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔ کبھی ختم نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔
(اقتباس از عمیرہ احمد)
زندگی کی راہوں میں رنج و غم کے میلے ہیں
بھیڑ ہے قیامت کی پھر بھی ہم اکیلے ہیں
گیسوؤں کے سائے میں ایک شب گزاری تھی
آج تک جدائی کی دھوپ میں اکیلے ہیں
سازشیں زمانے کی کام کرگئیں آخر
آپ ہیں اُدھر تنہا، ہم اِدھر اکیلے ہیں
کون کس کا ساتھی ہے، ہم تو غم کی منزل ہیں
پہلے بھی اکیلے تھے، آج بھی...
آج کی بات
روٹھے دوستوں کو منانے میں دیر نہیں کرنی چاہئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ۔۔۔۔۔۔۔ نقش مٹ جائیں اور ہم تلاش کرتے رہ جائیں اور کہیں ان کا نشان نہ پاسکیں۔