کسی انسان کی نرمی اس کی کمزوری کو ظاہر نہیں کرتی کیونکہ پانی سے نرم کوئی چیز نہیں ہے لیکن پانی کی طاقت چٹانوں کو ریزہ ریزہ کردیتی ہے۔
اب کس سے کہیں اور کون سنے جو حال تمہارے بعد ہوا
اس دل کی جھیل سی آنکھوں میں اک خواب بہت برباد ہوا
یہ ہجر ہوا بھی دشمن ہے اس نام کے سارے رنگوں کی
وہ نام جو...
اب کس سے کہیں اور کون سنے جو حال تمہارے بعد ہوا
اس دل کی جھیل سی آنکھوں میں اک خواب بہت برباد ہوا
یہ ہجر ہوا بھی دشمن ہے اس نام کے سارے رنگوں کی
وہ نام جو میرے ہونٹوں پر خوشبو کی طرح آباد ہوا
اس شہر میں کتنے چہرے تھے کچھ یاد نہیں سب بھول گئے
اک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہوا
وہ...
بعض دفعہ ساری زندگی گزارنے کے بعد بھی ہم یہ جان نہیں پاتے کہ ہمیں آخر زندگی میں کس چیز کی ضرورت تھی ۔۔۔۔۔۔ کسی چیز کی ضرورت تھی بھی یا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور بعض دفعہ زندگی کے آخری لمحات میں ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ جس چیز کو ہم نے زندگی کا حاصل بنا رکھا تھا اس چیز کے بغیر زندگی زیادہ اچھی گزر سکتی...
محبت وہ شخص کرسکتا ہے جو اندر سے خوش ہو، مطمئن ہو اور پرباش ہو۔ محبت کوئی سہ رنگا پوسٹر نہیں کہ کمرے میں لگالیا ۔۔۔۔۔ سونے کا تمغہ نہیں کہ سینے پر سجالیا۔۔۔۔ پگڑی نہیں کہ خوب کلف لگا کر باندھ لی اور بازار میں آگئے طرہ چھوڑ کر۔ محبت تو روح ہے۔۔۔۔۔ آپ کے اندر کا اندر ۔۔۔۔ آپ کی جان کی جان...
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا
کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں
چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا
یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
چراغ جلتے ہیں...
مذاق میں بھی کسی انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ان چیزوں کا تمسخر اڑائے جن میں انسان کا اختیار نہیں۔ جب ہم ایسا کررہے ہوتے ہیں تو ہم بالواسطہ اُس ذات کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں جس نے ان چیزوں کو تخلیق کیا ہے۔ انسان ناسمجھ ہے اور اس چیز کا شعور نہیں رکھتا۔ اس لئے تو خسارے میں رہتا ہے۔
(صائمہ اکرم...
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد
پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا
راہبر میرا بنا گمراہ کرنے کے لئے
مجھ کو سیدھے راستے سے دربدر اس نے کیا
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نامعتبر اس...
’’صبر کرنے‘‘ اور ’’صبر آجانے‘‘ میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اپنے دل پر جبر کرکے اپنا حوصلہ آزما کر چپ سادھ لینا اول الذکر جبکہ رو دھو کر، اپنا غم منا کر آنکھوں میں آنسوؤں کی قلت ہوجانے کے بعد خاموشی اختیار کرلینا موخر الذکر کے زمرے میں آتا ہے۔
صبر کوئی کوئی ’’کرتا‘‘ ہے۔
صبر ہر ایک کو ’’آجاتا‘‘...
tum ko dekha to ye khayal aaya
zindagi dhoop tum ghana saya
aaj phir dil nay ek tamanna ki
aaj phir dil ko hum nay samjhaya
tum chalay jao gay to sochain gay
hum nay kia khoya hum nay kia paya
hum jisay gunguna nahi saktay
waqt nay esa geet keo gaya
(javed akhtar)
بعض دفعہ خاموشی وجود پر نہیں دل میں اترتی ہے، پھر اس سے زیادہ مکمل، خوبصورت اور بامعنی گفتگو کوئی اور چیز نہیں کرسکتی اور یہ گفتگو انسان کی ساری زندگی کا حاصل ہوتی ہے اور اس گفتگو کے بعد ایک دوسرے سے کبھی دوبارہ کچھ کہنا نہیں پڑتا ۔۔۔۔۔ کچھ کہنے کی ضرورت رہتی ہی نہیں !!!
(عمیرہ احمد کے ناول...
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے، گزرتا ہے، گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوتِ غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
تم سرِ راہِ وفا دیکھتے رہ جاؤگے
اور وہ بامِ رفاقت سے اتر جائے گا
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پر دھر جائے گا...
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مرجائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں، جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا
اب کون منتظر ہے ہمارے لئے وہاں
شام آگئی ہے، لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا
دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں...
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی
اے دل کسے نصیب یہ توفیقِ اضطراب
ملتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی
تیرے کرم سے اے عالمِ حسن آفریں
دل بن گیا ہے دوست کی خلوت کبھی کبھی
جوشِ جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ
آنکھوں میں ڈھل گئی تیری صورت کبھی کبھی...
انسان اور انسانیت
ایک انسان دوسرے انسان سے مایوس ہوسکتا ہے لیکن ۔۔۔۔۔ انسانیت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔۔۔۔۔ اس لئے کہ انسان صرف زمین میں سانس لیتا ہے ۔۔۔۔۔ اور انسانیت زمانوں میں زندہ ہے ۔۔۔۔۔
(جون ایلیا)
غم عاشقی سے کہہ دو، رہِ عام تک نہ پہنچے
مجھے خوف ہے یہ تہمت، مرے نام تک نہ پہنچے
میں نظر سے پی رہا تھا، تو یہ دل نے بددعا دی
تیرا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے
وہ نوائے مضمحل کیا، نہ ہو جس میں دل کی دھڑکن
وہ صدائے اہلِ دل کیا، جو عوام تک نہ پہنچے
مرے طائرِ نفس کو نہیں باغباں سے رنجش...
تم نہ مانو، مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے
کچھ تو دل مبتلائے وحشت ہے
کچھ تری یاد بھی قیامت ہے
میرے محبوب مجھ سے جھوٹ نہ بول
جھوٹ صورت گر صداقت ہے
جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ
زندگی کو میری ضرورت ہے
حسن ہی حسن جلوے ہی جلوے
صرف احساس کی ضرورت ہے
ان کے وعدے پہ ناز تھے کیا کیا
اب در و...
بے چین بہت پھرنا، گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لبِ لعلیں کی
اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا، شرمائے ہوئے رہنا
اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے...
بے چین بہت پھرنا، گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لبِ لعلیں کی
اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا، شرمائے ہوئے رہنا
اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے...
سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی
اک لحظہ بہے آنسو، اک لحظہ ہنسی آئی
سیکھے ہیں نئے دل نے اندازِ شکیبائی
اس موسمِ گل ہی سے بہکے نہیں دیوانے
ساتھ ابرِ بہاراں کے وہ زلف بھی لہرائی
ہر دردِ محبت سے الجھا ہے غمِ ہستی
کیا کیا ہمیں یاد آیا، جب یاد تری آئی...